سنہرا ہتھیار

روس، چین، ترکی، پولینڈ اور بھارت سمیت کئی دیگر ممالک نے گزشتہ چند برسوں کے دوران اپنے سونے کے ذخائر میں اضافہ کیا ہے اور اضافے کا رجحان مسلسل جاری ہے۔ روس نے مجموعی طور پر 1298 ٹن، چین نے 1181 ٹن، ترکی نے 424 ٹن، پولینڈ نے 256 ٹن اور بھارت نے 246 ٹن سونا جمع کیا ہے۔ مجموعی طور پر، یہ اضافہ تقریبا 300 ارب ڈالر کی خرید و فروخت سے متعلق ہے۔روسی فیڈریشن کے مرکزی بینک نے اپنے ذخائر کو بڑھا کر 2333 ٹن کر دیا ہے جس کی مالیت تقریبا 200 ارب ڈالر ہے۔ اسی طرح پیپلز بینک آف چائنا (پی بی او سی) کے پاس اب 2235 ٹن سونا ہے جس کی مالیت تقریبا194 ارب ڈالر ہے جو چین کے زرمبادلہ کے ذخائر کا 5.4 فیصد بنتا ہے۔ یہ اہم ہولڈنگز مرکزی بینکوں کے درمیان سونے کے ذخائر میں اضافے کے عالمی رجحان کی عکاسی کرتی ہیں، جو اس سال سونے کی ریکارڈ قیمتوں کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں سونے کی قیمت 33 فیصد اضافے کے ساتھ تاریخ کی بلند ترین سطح 35فیصد تک پہنچ چکی ہے۔سال 2022ء میں امریکہ نے روس کو بینکوں کے لئے عالمی پیغام رسانی کے نیٹ ورک سے کٹ کر سوئفٹ کو ہتھیار بنایا تھا۔ کیا روس اور چین سونے کو فعال طور پر مالیاتی ہتھیار بنانے اور استعمال کرنے کی خواہش رکھتے ہیں؟ ”سونا ہتھیار بھی ہے“ یہ ایک محاورہ اُور حربہ ہے کہ سونے کو طاقتور جغرافیائی سیاسی ہتھیار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے‘ جو اثر و رسوخ کا ایک مالیاتی ہتھیار ہے۔ سونے کے ذخائر میں جارحانہ طور پر اضافہ کرکے، روس اور چین امریکی ڈالر کی بالادستی کو چیلنج کرنے کا اشارہ دے رہے ہیں، جس سے عالمی مالیات میں ڈالر کے کردار کو غیر مستحکم کرنے کا خطرہ ہے۔کیا روس اور چین فعال طور پر سونے کو ہتھیار بنا رہے ہیں؟ سونا، جو تاریخی طور پر کسی ملک کے لئے مالیاتی بحران کے دور میں ”محفوظ پناہ گاہ“ یعنی بطور اثاثہ رکھا جاتا ہے، روس اور چین کے لئے موجودہ عالمی حالات میں اہم ڈھال بن گیا ہے کیونکہ وہ اپنے مالیاتی دفاع کو پہلے سے زیادہ مضبوط بنا رہے ہیں۔ روس اور چین صرف سونا ہی نہیں خرید رہے ہیں بلکہ وہ اسے مغربی مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ اور ممکنہ معاشی جنگ سے بچانے کے لئے سونا جمع بھی کر رہے ہیں۔ یہ صرف دولت کا تحفظ نہیں۔ یہ عالمی مالیاتی نظام کے قائم شدہ نظام کے خلاف ایک جرأت مندانہ مؤقف بھی ہے۔کیا روس اور چین سنہری ہتھیار بنا رہے ہیں؟ روس اور چین کے لئے سونا صرف قیمتی دھات نہیں بلکہ یہ مالیاتی آزادی ہے۔ بحران کے وقت، سونے کے یہ وسیع ذخیرے جو روس اور چین مالیاتی طاقت کے لئے استعمال کر سکیں گے۔ سونے کی ہولڈنگز صرف ایک حفاظتی جال نہیں ہوتا بلکہ یہ وہ قلعہ ہوتا ہے‘ جو ان کے حق میں معاشی طاقت کو نئی شکل دیتا ہے۔روس اور چین کی جانب سے سونے کے ذخائر کا استعمال، خاص طور پر جغرافیائی سیاسی تناؤ اور معاشی غیر یقینی صورتحال کے تناظر میں، ممکنہ طور پر سونے کی قیمت کے از سر نو تعین کا باعث بن سکتا ہے۔ اس سے سونے کی مانگ بڑھ سکتی ہے، جس سے قیمتیں ناقابل تصور بلندیوں تک پہنچ سکتی ہیں۔ چاندی، جسے اکثر ’صنعتی سونا‘ کہا جاتا ہے، کی قیمتوں میں بھی نمایاں اضافہ دیکھا جا سکتا ہے۔عالمی رجحان کے پیش نظر سونے کو اسٹریٹجک اثاثہ تصور کرنے کے عالمی رجحان کے پیش نظر خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کو اس تبدیلی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تین اہم محاذوں پر فیصلہ کن اقدامات کرنے چاہئیں: پہلا یہ کہ اسٹیٹ بینک پر زور دیا جانا چاہئے کہ وہ اپنے سونے کے ذخائر کو موجودہ پانچ ارب ڈالر سے زیادہ بڑھائے۔دوسری بات یہ ہے کہ سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کو ان ریگولیٹری فریم ورک کو ترجیح دینی چاہئے جو سونے کی سرمایہ کاری کو آسان بناتے ہیں، جس میں سونے کی حمایت یافتہ ایکس چینج ٹریڈڈ فنڈز (ای ٹی ایف) کو فروغ دینا بھی شامل ہے تاکہ ادارہ جاتی اور خوردہ سرمایہ کاروں کی ایک وسیع رینج کو راغب کیا جا سکے۔آخر میں‘ صوبائی کان کنی اور معدنیات کے محکموں کو فوری طور پر پاکستان کے بے پناہ گھریلو سونے کے ذخائر کو کھولنے کے لئے ترقیاتی حکمت عملی کو فعال کرنا چاہئے، خاص طور پر ریکوڈک کان میں، جس میں صرف ایک اندازے کے مطابق 1751 ٹن سونا ہے جس کی مالیت تقریباً100ارب ڈالر بنتی ہے۔ پاکستان کے پاس سونے کے وسیع ذخائر موجود ہیں جبکہ مزید کی کھوج بھی کی جانی چاہئے اور اگر مربوط حکمت عملی تشکیل دی جائے تو اِس سے پاکستان نہ صرف اپنی مالیاتی پوزیشن (بنیادوں) کو بہتر و مضبوط بنا سکتا ہے بلکہ اپنے قدرتی وسائل کی طویل مدتی صلاحیت سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے قابل ہو سکتا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)