توانائی اصلاحات ناکام کیوں؟

توانائی کے شعبے میں اصلاحات کی ضرورت ایک عرصے سے محسوس کی جا رہی ہے اور اِس حوالے سے وعدے بھی کئے گئے لیکن عملاً بہت کم کام دیکھنے میں آیا ہے۔ توانائی کی پیداوار میں اضافے، ترسیل کے دوران بجلی کے ضائع ہونے سے نقصانات کم کرنے اور بجلی کی لاگت میں کمی جیسی اصلاحات درکار ہیں جن میں ناکامی کی وجہ سے پاکستان توانائی کے بحران میں پھنسا ہوا ہے جو معاشی ترقی کے لئے کمزوری کا باعث ہے اور اس کی وجہ سے عوام پر زیادہ بجلی بلوں کی صورت بوجھ بھی بدستور برقرار ہے۔ بجلی کی صلاحیت کا جال، بڑھتے ہوئے ٹیرف اور غیر مستحکم گردشی قرضے اس شعبے کی ترقی کو مسلسل متاثر کر رہے ہیں۔
یہ سمجھنے کے لئے کہ یہ اصلاحات بار بار ناکام کیوں ہوتی ہیں، تکنیکی حل سے آگے دیکھنا ہوگا اور بجلی کے شعبے کو تشکیل دینے والی ساختی اور ادارہ جاتی حرکیات پر غور کرنا ہوگا۔ نوبل انعام یافتہ مصنفین ڈیرن ایسموگلو اور جیمز رابنسن کی کتاب ”قومیں کیوں ناکام ہوتی ہیں؟“ میں اِس حوالے سے دیکھا جائے تو توانائی کے شعبے میں اصلاحات انتہائی ضروری ہیں۔ ایک عام خیال یہ ہے کہ پاکستان کے توانائی کے مسائل جغرافیائی حدود کی وجہ سے ہیں جبکہ سماجی و اقتصادی اور گورننس کی وجہ سے اِس شعبے کی کارکردگی میں نااہلی، چوری اور توانائی کی کھپت میں احتساب کی مبینہ کمی کی نشاندہی ہوتی ہے۔ پاکستان میں توانائی کے شعبے میں ناکامیوں کی بنیادی وجوہات کو سمجھنے کے لئے دلیل دی جاتی ہے کہ صرف جغرافیہ اور ثقافت ہی اِس کے لئے ذمہ دار نہیں بلکہ دنیا کے وہ سبھی ممالک جو زیادہ چیلنجنگ جغرافیہ رکھتے ہیں جیسا کہ چین، چلی، یا برازیل، نے متنوع اور پائیدار متبادل توانائی کے نظام تشکیل دے کر توانائی کے شعبے کو سہارا دیا ہے۔ پاکستان میں اِس مسئلہ کے محل وقوع یا سماجی و اقتصادی روئیوں کا نہیں بلکہ توانائی کے شعبے کو چلانے والے اداروں کی صلاحیت میں اضافے سے مطلوبہ اہداف حاصل کئے جا سکتے ہیں۔پاکستان کے توانائی کے شعبے میں ناکامیوں کی وجہ پالیسی سازوں میں مہارت کا فقدان ہے۔ اس نکتہ¿ نظر کی وجہ سے آئی ایم ایف، ایشیائی ترقیاتی بینک یا عالمی بینک جیسے کثیر الجہتی مالیاتی اداروں کے کہنے پر متعدد اقدامات کئے گئے جن میں مشاورتی اداروں (کنسلٹنٹس) سے رجوع‘ مطالعات اور بیرونی تکنیکی مہارت پر انحصار شامل ہیں۔ اِن مداخلتوں میں صلاحیت سازی، تکنیکی اصلاحات اور نئے انتظامی فریم ورک متعارف کرانے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے اس امید میں کہ مسائل کے بارے میں زیادہ علم تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا اور اِس سے اصلاحات کے عملاً نتائج بہتر ہوں گے لیکن تمام ترمہارت کے باوجود یہ شعبہ بحران کا شکار ہے جس کا تکنیکی حل ٹرانسمیشن کی کارکردگی بہتر بنانا، پیداواری صلاحیت میں اضافہ یا ایندھن کے مسائل کو حل کرنے جیسے پہلوو¿ں کا احاطہ کرتا ہے۔ درحقیقت اصل مسئلہ زمینی حقائق سے متعلق علم کی کمی نہیں بلکہ اِس کی اصلاح میں خاطرخواہ گہری دلچسپی کا نہ ہونا اور ایک مربوط منصوبہ بندی کا فقدان ہے جو بامعنی تبدیلی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستان کو بجلی کے شعبے کے ایک ایسے ایجنڈے کی ضرورت ہے جو بجلی کو پیداواری معیشت کے ساتھ اِسے دیگر معاشی ترقی کی کوششوں سے مربوط بھی رکھے۔بجلی کے شعبے کا بحران گردشی قرضوں کی وجہ سے مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔گردشی قرض سے مراد سرکاری اداروں، بجلی پیدا کرنے والوں اور ڈسٹری بیوٹرز کے درمیان واجبات کی عدم ادائیگی کا سلسلہ ہے، جو نااہلی، چوری اور بلوں کی کم وصولی سے پیدا ہوتا ہے۔ ہر بار جب قرض غیر مستحکم سطح پر پہنچ جاتا ہے، تو حکومت بنیادی وجوہات کو دور کئے بغیر عارضی طور پر بیک لاگ کو دور کرنے کے لئے سبسڈی (مالی انجکشن) دے دیتی ہے۔یہ سلسلہ کئی سالوں سے جاری ہے، جس میں حکومتیں گردشی قرضوں کی ادائیگی کے لئے بینکوں سے قرض لے رہی ہیں یا بانڈز جاری کر رہی ہیں۔ کسی بھی اصلاحی کوشش کے لئے احتساب بہت ضروری ہے۔ جب تک جملہ ادارہ جاتی رکاوٹوں کو دور نہیں کیا جاتا، پاکستان کا توانائی کا شعبہ بحران اور اصلاحات کی ناکامی کے چکر میں پھنسا رہے گا، جس کی قیمت عوام کو چکانی پڑے گی۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر خالد ولید۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)