چودہ اکتوبر دوہزارچوبیس کے روز رائل سویڈش اکیڈمی آف سائنسز نے اکنامک سائنسز میں سویریز ریکس بینک انعام (جسے معاشیات میں نوبل انعام کے طور پر جانا جاتا ہے) کا اعلان کیا، جو ڈارون اسیموگلو، سائمن جانسن اور جیمز اے رابنسن نامی سائنسدانوں کو دیا گیا۔ اِن سائنسدانوں نے اداروں کی تشکیل اور خوشحالی سے متعلق سماجی و معاشی اثرات کے بارے میں مطالعہ کیا جبکہ اِن کی گرانقدر تحقیق قوموں کے درمیان معاشی عدم مساوات پیدا کرنے میں سماجی اداروں کے اہم کردار پر روشنی ڈالتی ہے۔ تحقیق سے تین روایتی نکتہئ ہائے نظر سامنے آئے جو معاشی ترقی میں اختلافات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ جغرافیائی مفروضہ‘ جغرافیہ اور قدرتی وسائل وہ تین پہلو ہیں جن کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ سازگار حالات والی قومیں تیزی سے ترقی کرتی ہیں۔ ثقافتی مفروضہ ترقی کو ثقافتی عوامل کو نہ صرف تشکیل دیتے ہیں بلکہ یہ اخلاقیات اور معاشرتی اصولوں سے متعلق اصول بھی طے کرتے ہیں۔ یہ دلیل دیتے ہوئے کہ سخت محنت اور جدت کی قدر کرنے والے معاشرے زیادہ ترقی کرتے ہیں تحقیق میں جہالت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اختلافات ترقی کے بنیادی اصولوں کا تعین کرتی ہے اور یہ کہ غیر مؤثر قیادت وسائل کے غیر مؤثر استعمال اور ناقص ترقیاتی نتائج کا باعث بنتی ہے۔مذکورہ نوبل انعام یافتہ افراد کا ادارہئ جاتی مفروضہ ان خیالات کو چیلنج کرتے ہوئے اس بات پر بھی زور دیتا ہے کہ قومی خوشحالی کے اختلافات کے پیچھے بنیادی عنصر ادارے اور اِن اداروں کی ساخت و نوعیت ہے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ نوآبادیات نے عالمی سطح پر ادارہ جاتی ڈھانچے کو کس طرح متاثر کیا اور پایا کہ اِس کی دو اقسام ہیں۔ ایک قسم ایسے اداروں کی ہے جن کا مقصد مقامی آبادیوں کا استحصال کرنا ہے اور دوسرا جامع ادارے ہوتے ہیں جنہوں نے یورپی آباد کاروں کے لئے طویل مدتی ترقی کو فروغ دیا۔ جامع ادارے عوامی خدمات و اشیاء میں وسیع شراکت داری اور سرمایہ کاری کے ذریعے پائیدار ترقی کا تجربہ رکھتے ہیں۔ تحقیق میں یہ بات بھی ثابت کی گئی کہ کس طرح ادارہ جاتی اختلافات نے قوموں کی تقدیر کو نئی شکل دی ہے اور کچھ سابقہ غریب ممالک نے خوشحالی حاصل کی اور امیر لوگ غریب ہوتے چلے گئے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اجارہ داری والی طاقت اور محدود آزادیوں کی خصوصیت رکھنے والے ادارے ترقی اور جدت کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں جبکہ جامع ادارے معاشی شراکت داری اور پائیدار ترقی کے فروغ کا باعث بنتے ہیں۔معاشیات میں حالیہ نوبل انعام یافتہ افراد کی وضاحت کے مطابق جامع اور اخذ شدہ اداروں کی روشنی میں اگر پاکستان کا تجزیہ کیا جائے تو اپنی نوآبادیاتی وراثت اور آزادی کے بعد سے ریاستی اداروں، پالیسیوں اور طرز عمل حاوی رہا ہے اور اِس اثر و رسوخ پر قابو پانے کے لئے جدوجہد کی اپنی ایک الگ تاریخ بھی ہے اگرچہ سیاسی، معاشی اور سماجی سطح پر کچھ جامع طریقے موجود ہیں لیکن پاکستان کے ریاستی اداروں نے تاریخی طور پر نوآبادیاتی حکومت کے ذریعہ قائم ڈھانچے کے غلبے کو برقرار رکھا ہے جس کے نتیجے میں پائیدار ترقی کی صلاحیت سے خاطرخواہ فائدہ نہیں اُٹھایا جا سکا۔ اکانومسٹ نامی ادارے کے انٹیلی جنس یونٹ نے حال ہی میں ایک ڈیموکریسی انڈیکس جاری کی جس میں 165 ممالک میں جمہوریت کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور اِس جائزہ میں کسی ملک کے ساٹھ اشارئیوں کو فہرست کیا گیا اور حاصل شدہ سکور کی بنیاد پر اُن ممالک کو چار زمروں میں درجہ بندی کی گئی۔ سال دوہزارچھ میں متعارف کرائے جانے کے بعد سے ہر سال یہ انڈکس جاری ہوتی ہے اور پاکستان کی کارکردگی اِس عالمی درجہ بندی میں مسلسل خراب رہی ہے، ابتدائی طور پر جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں اس نے 3.92 سکور کیا تھا جبکہ سال دوہزارآٹھ سے دوہزاربائیس تک پاکستان کا سکور 4.13 اور 4.64 کے درمیان رہا، جس کی وجہ سے اسے ”ہائبرڈ رجیم“ قرار دیا گیا تاہم، حال ہی میں، پاکستان کا سکور غیرمعمولی طور پر کم ہو کر 3.25 ہو گیا ہے جس نے پاکستان کو تیسرا بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والا ملک قرار دیا اور اسے ”مکمل آمرانہ“ طرزحکمرانی رکھنے والے ممالک کے زمرے میں شمار کیا گیا۔ اس کمی کی وجہ انتخابات میں غیرمتعلقہ حکومتی اداروں کی مداخلت‘ حکومتی کمزوری اور حزب اختلاف کے خلاف جبر کا استعمال ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر نیئر رفیق۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
یہ سمجھنے کے لئے کہ سیاسی اور حکومتی اداروں نے پاکستان کے معاشی اور سماجی اداروں کو کس طرح متاثر کیا ہے، ہمیں مختلف سماجی اشارئیوں کے ساتھ ساتھ تاریخی معاشی کارکردگی کا تجزیہ بھی کرنا ہوگا۔ گزشتہ سات دہائیوں کے دوران تاریخی معاشی اعداد و شمار پریشان کن منظر نامے کو ظاہر کر رہے ہیں جس میں کمزور معاشی شرح نمو، قرضہ جات میں اضافہ، غیر متوازن محصولات، افراط زر (مہنگائی)، مسلسل بڑھتی ہوئی بے روزگاری، کرنسی (پاکستانی روپے) کی قدر میں کمی اور دائمی مالی اور تجارتی خسارے جیسے محرکات شامل ہیں جبکہ پاکستان میں فی کس آمدنی کم ہو رہی ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور عالمی بینک جیسے عالمی ذرائع کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 1960ء سے 2023ء تک جی ڈی پی کے مقابلے میں اوسط ٹیکس تناسب سات فیصد سے 13.7 فیصد کے درمیان رہا ہے۔ پاکستان میں اداروں نے گزشتہ 77 برس کے دوران اوسط سے کم کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ پائیدار اور ترقی پر مبنی معیشت، معاشرے اور عوام کی توقعات کی عکاسی کرنے والے ایک حقیقی سیاسی نظام کے حصول کے لئے پاکستان کو اپنے ادارہ جاتی ماڈل کو از سر نو تشکیل دینے کی ضرورت ہے تاکہ زیادہ جامع و پائیدار ترقی کا حصول عملاً ممکن ہو سکے۔