پناہ گزین: ذمہ دارانہ انتظام

گزشتہ برسوں کے دوران، پاکستان نے خطے میں دہائیوں سے جاری تنازعات کی وجہ سے لاکھوں پناہ گزینوں کی میزبانی کی ہے، ان پناہ گزینوں میں اکثریت کا تعلق افغانستان سے ہے۔ افغانوں کی آمد کا انتظام بہت سے چیلنجز لئے ہوئے ہے، خاص طور پر اس کے قومی سلامتی اور سکیورٹی سے متعلق مضمرات ہیں۔ پاکستان کو اپنے شہریوں کا تحفظ یقینی بناتے ہوئے پناہ گزینوں کو انسانی امداد فراہم کرنے کی دوہری ذمہ داری کا سامنا ہے۔ اس وقت ملک میں تقریباً چودہ لاکھ رجسٹرڈ افغان پناہ گزین ہیں، جن کے علاوہ تقریباً پندرہ لاکھ غیر رجسٹرڈ مہاجرین ہیں اور اگر پاکستان کا رخ کرنے والے مہاجرین کو دیکھا جائے تو مختلف ادوار میں ان کی تعداد مختلف رہی ہے‘ جس کی بنیادی وجہ ہمسایہ ملک افغانستان میں تنازعات اور عدم استحکام ہے۔ مہاجرین کی آمد کا سلسلہ 1979ء میں اس وقت کی سوویت یونین (روس) کے افغانستان پر حملے کے فوراً بعد شروع ہوا‘ جس کے نتیجے میں افغان مہاجرین کی پہلی بڑی لہر پاکستان میں داخل ہوئی۔ جنگ زدہ افغانستان سے لاکھوں افراد سرحد پار پناہ کی تلاش میں آئے۔ مہاجرین کی آمد کی دوسری لہر 1992ء سے 2001ء کے درمیانی عرصے میں دیکھی گئی جب افغانستان میں سوویت حمایت یافتہ حکومت کے خاتمے کے بعد مختلف دھڑوں کے درمیان طویل خانہ جنگی شروع ہوئی تھی۔ مہاجرین کی تیسری لہر 1990ء کی دہائی کے آخر میں افغانستان میں طالبان کے عروج کے دوران دیکھی گئی جب پناہ گزینوں کا بحران مزید بڑھا اور اس کی بنیادی وجہ افغانستان کے داخلی حالات تھے تاہم سال 2001ء کے دوران امریکہ کی قیادت میں افغانستان پر حملے کے نتیجے میں پناہ گزینوں کی آمد میں کمی واقع ہوئی کیونکہ افغان سرزمین پر استحکام آیا لیکن یہ معاشی و سماجی استحکام پائیدار ثابت نہ ہوا اور ایک مرتبہ پھر افغانوں نے بطور مہاجر پاکستان کا رخ کیا۔ طالبان کے دوبارہ ابھرنے اور 2021ء میں امریکی افواج کے انخلأ کے نتیجے میں پاکستان میں تحفظ کے متلاشی افغان پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی موجودگی کی وجہ سے سلامتی کو خطرات لاحق تھے۔ پناہ گزینوں کی آمد نے سکیورٹی کے منظر نامے کو مزید پیچیدہ اور گھمبیر بنا دیا۔ یہ خدشات اپنی جگہ موجود ہیں کہ افغان پناہ گزینوں کی آڑ میں انتہا پسند گروہ بھی پاکستان میں داخل ہو چکے ہیں جن کی وجہ سے پاکستان ایک عرصے سے جرائم‘ تشدد‘ دہشت گردی اور عدم استحکام کا شکار ہے۔ پناہ گزینوں کو معاشرے میں ضم نہ کرنے کی وجہ سے وہ تنہائی کا شکار ہیں‘ جس کی وجہ سے کچھ افراد شدت پسندی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ مجموعی طور پر، یہ حرکیات ایک پیچیدہ سکیورٹی ماحول پیدا کرتی ہیں جو پناہ گزینوں اور پاکستان میں میزبان برادریوں دونوں کے لئے چیلنجز کا باعث ہے۔ مزید برآں، پناہ گزینوں کی آمد مقامی وسائل اور بنیادی ڈھانچے پر دباؤ ڈال سکتی ہے، جس کے نتیجے میں ملازمتوں، رہائش اور بنیادی خدمات کے حصول کے لئے مقابلے میں اضافہ ہوا ہے اور اس سے عدم استحکام کی صورتحال زیادہ گھمبیر ہوئی ہے۔ پاکستان نے مہاجرین کی پیچیدہ صورتحال سے نمٹنے کے لئے متعدد اقدامات کئے ہیں۔ مثال کے طور پر، افغان پناہ گزینوں کو پناہ گزین کارڈ کے اجرأ سے انہیں قانونی طور پر پاکستان میں قیام اور ملازمتوں تک رسائی حاصل ہوئی ہے۔ اس اقدام سے نہ صرف پناہ گزینوں کی مدد ہوئی ہے بلکہ ان کی نقل و حرکت اور سرگرمیوں کی زیادہ مؤثر طریقے سے نگرانی بھی جاری ہے۔ مزید برآں، پاکستان نے پناہ گزینوں کے بحران سے پیدا ہونے والے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ تعاون کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) نے پناہ گزینوں اور میزبان برادریوں کو مدد فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے جس میں مختلف پروگراموں کے ذریعے، حالات زندگی میں بہتری، معیاری تعلیم تک رسائی اور صحت کی دیکھ بھال کی خدمات کو بہتر بنایا گیا ہے تاہم پناہ گزینوں کے بحران سے نمٹنے کے لئے کثیر الجہتی نکتہئ نظر اپنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے لئے داخلی سلامتی برقرار رکھنا ایک مستقل چیلنج ہے اگرچہ حکومت نے ان مسائل کو حل کرنے میں اہم پیش رفت کی ہے لیکن بین الاقوامی برادری کی طرف سے پاکستان کی مدد اور مسلسل حمایت ضروری ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر وارثہ ارشد۔ ترجمہ ابوالحسن امام)