یو این ایف سی او پی 29 اجلاس کے لئے عالمی رہنما باکو میں جمع ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ دنیا کو موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں فیصلہ کن کاروائی کی فوری ضرورت کبھی بھی اِس قدر نہیں تھی‘ جس قدر شدت سے آج محسوس کی جا رہی ہے۔ درحقیقت یہ اجتماع کمزوری ہے جسے تبدیل کرنے کا شاید یہ آخری موقع ہے اور اگر عالمی رہنما عملی اقدامات بھی کرتے ہیں تو اِس سے سب کے لئے پائیدار اور محفوظ مستقبل کی بنیاد رکھی جائے گی‘ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو ایسے فیصلہ کن لمحات پہلے بھی دیکھنے میں آتے رہے ہیں جنہوں نے معاشروں کو تشکیل دیا ہے اور یہی ترقی یا زوال کا سبب بھی بنے ہیں۔ آج انسانیت کو ایک ایسے ہی لمحے کا سامنا ہے۔ ”سی او پی 29“ ایک ماحولیاتی کانفرنس سے زیادہ اہم ہے۔ یہ درست فیصلوں یعنی درست انتخاب کا موقع ہے اُور اگر اِس موقع کو ضائع کر دیا گیا تو موسمیاتی تبدیلیوں سے خطرات میں اضافہ ہوگا۔سی او پی 29‘ میں شریک رہنماؤں کو درپیش چیلنجوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ کا حالیہ صدارتی انتخاب جیت چکے ہیں اور وہ تحفظ ماحول کی عالمی یا ملکی کوششوں کے زیادہ حامی نہیں۔ موسمیاتی سائنس کے بارے میں ٹرمپ شکوک و شبہات کا اظہار کرتے رہے ہیں‘ اُن کی بطور صدر امریکہ واپسی سے تحفظ ماحول میں عالمی سرمایہ کاری کم ہو گی‘ اپنی پچھلی مدت صدارت کے دوران انہوں نے امریکی خودمختاری اور معاشی مفادات پر خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے امریکہ کو پیرس معاہدے سے الگ کر لیا تھا اگرچہ موجودہ جو بائیڈن انتظامیہ نے آب و ہوا کے اہداف میں دوبارہ شمولیت اختیار کی اور انہیں تقویت بخشی لیکن ٹرمپ کی آنے والی صدارتی مدت ان کوششوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے، جس سے ممکنہ طور پر سی او پی 29 کے نتائج متاثر ہوسکتے ہیں۔ اگر امریکہ، ٹرمپ کی قیادت میں، بین الاقوامی ماحولیاتی معاہدوں سے الگ ہوتا ہے، تو اس کے عالمی نتائج نمایاں طور پر خراب ہوسکتے ہیں۔ اس منظر نامے میں یورپی یونین، چین اور ایشیا و افریقہ کے لئے ضروری ہو جائے گا کہ وہ اپنا الگ لائحہ عمل تشکیل دیں۔
پاکستان جیسے ممالک کے لئے، سی او پی 29 صرف بات چیت کا موقع ہے اُور اِس موقع کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے آب و ہوا کی مالی اعانت میں اضافے سے لے کر قابل تجدید توانائی کے لئے زیادہ سے زیادہ تکنیکی و مالی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ توجہ طلب ہے کہ امریکہ کے منفی کردار کی وجہ سے جو ممکنہ غیر یقینی کی صورتحال درپیش ہے اُس کی وجہ سے پاکستان اور دیگر موسمیاتی خطرات سے دوچار ممالک کو عالمی مدد نہ مل سکے۔ آب و ہوا کی تبدیلی میں اضافے کے ساتھ فنانسنگ میکانزم بھی ضروری ہیں۔ صرف پاکستان میں حالیہ چند برسوں میں تباہ کن سیلاب، شدید ہیٹ ویو اور برفانی جھیلوں کے پھٹنے سے لاکھوں زندگیاں متاثر ہوئی ہیں اور مزید لاکھوں زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں جبکہ غذائی تحفظ بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ لاہور، جسے کبھی باغات کا شہر کہا جاتا تھا، اب دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سرفہرست ہے، جو ماحولیاتی دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لچکدار شہری نظام کی فوری ضرورت کو اجاگر کر رہا ہے لیکن سی او پی29‘ میں پاکستان کا بیانیہ صرف کمزوری کا نہیں ہونا چاہئے۔ سال دوہزاربائیس کے تباہ کن سیلاب کے بعد لاکھوں پاکستانیوں نے خود انحصاری کے جذبے کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے وسائل بروئے کار لاتے ہوئے اپنی معاشی و سماجی زندگیوں کو ازسرنو بحال کیا ہے۔ اسی طرح پاکستان شمسی توانائی زراعت اور چھوٹے کاروبار کے ذریعے تبدیلی لانے والی قوت بن چکی ہے جو قومی ترقی کو آگے بڑھانے کے لئے نچلی سطح کی کوششوں کی صلاحیت کا مظاہرہ کرتی ہے۔ اسی جذبے کے تحت، بہت سی برآمدی صنعتوں نے یورپی یونین (اور ممکنہ طور پر، امریکہ اور چین) حکومت کے کاربن بارڈر ایڈجسٹمنٹ میکانزم کا حصہ بننے کے لئے تیاری شروع کررکھی ہے۔سی او پی کے تمام مندوبین کو مستقبل کی ضروریات اور چیلنجوں کا احاطہ کرنے کے لئے آواز اٹھانی چاہئے۔ سی او پی 29‘ میں کئے گئے فیصلوں سے مستقبل تشکیل پائے گا۔ دنیا جس چوراہے پر کھڑی ہے اُس میں سب سے بنیادی سوال بقاء کا ہے جس کے لئے موسمیاتی تبدیلیوں کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ سی او پی 29‘ میں طویل المیعاد لائحہ عمل تشکیل دے کر جامع حل کی تلاش کی جائے تو اِس سے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر مستحکم اور مشترکہ خوشحالی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)۔