وی پی این: غلط فہمیاں

پاکستان میں وی پی این (ورچوئل پرائیوٹ نیٹ ورک) کے بارے میں گفتگو یکطرفہ انداز سے رہی ہے، اور یہ مکمل غلط فہمی اور شاید وی پی این کی دانستہ غلط بیانی کی وجہ سے گمراہ کن بھی ہے۔ سرکاری حکام عام طور پر وی پی این کو ایک ایسی چیز کے طور پر پیش کرتے ہیں جو دہشت گرد اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کےلئے یا غیر اخلاقی حرکتوں کے لئے مخصوص ہے اور اِس کی وجہ سے فحش مواد دیکھنے تک رسائی محدود کی جا سکتی ہے حالانکہ یہ مکمل حقیقت نہیں ہے۔ وی پی این کے بارے میں پورا سچ بیان کرنے کی ضرورت ہے؟ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے خطوط کو ڈاک کے ذریعے بھیجنے سے پہلے خطوط کو لفافے میں رکھنا اور گوند یا ٹیپ سے مہر لگانا غیر اخلاقی عمل ہے؟ کیا ڈاک کے بجائے دوسرے دوستوں کے ذریعے دوستوں کو خطوط بھیجنا غیر قانونی ہے یا بُرا عمل ہے؟ وہ منیجر جو اپنے قابل اعتماد جونیئر کو ایک لفافہ دیتا ہے اور اسے ادارے کے سربراہ (سی ای او) کے پاس لے جانے کو کہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے کہ کسی کو بھی اِسے کھولنے نہ دینا تو کیا ایسا کرنا غلط ہے؟ کیا ہمارے گھروں میں محفوظ رہنا برائی ہے؟ کیا ہمارے گھروں یا دفاتر کی حفاظت کرنا غیر قانونی ہے؟ کیا ہماری پرواز کے لئے اپنے سوٹ کیسوں کو چیک کرتے وقت انہیں بند کرنا غیر اخلاقی ہے؟ اگر آپ کے ان لاک سوٹ کیس سے کچھ چوری ہو گیا تھا، تو کیا ہر کوئی چور کے بجائے آپ کی بے وقوفی کو مورد الزام نہیں ٹھہرائے گا؟ یہ تمام منظر نامے انسانی زندگی کے معمولات ہیں۔ انسان صدیوں سے اسی طرح زندگی بسر کر رہا ہے۔ روزمرہ زندگی میں رازداری کی توقع کرنا غیر اخلاقی یا برا نہیں سمجھا جاتا۔ اِسی طرح کسی بھی مرد یا عورت کے پرائیویسی کا حق اُس کا بنیادی انسانی حق ہے، جو قرآن و حدیث سے بھی کی حمایت حاصل ہے تاکہ ہم اپنے شخص کے وقار کو برقرار رکھیں۔ پرائیویسی اور وقار کا حق پاکستان کے آئین کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے میں بھی شامل ہے، جس پر پاکستان نے دستخط کر رکھے ہیں تاہم ہماری دنیا کا سیاق و سباق یکسر بدل چکا ہے۔ اب زیادہ تر رابطے انٹرنیٹ کے ذریعے ہوتے ہیں۔ ہم ای میل، سوشل میڈیا ان باکسز اور واٹس ایپ کے ذریعہ اپنی نجی زندگی پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ کمپیوٹر، موبائل فون اور انٹرنیٹ ہماری زندگیوں میں اس قدر جڑے ہوئے ہیں کہ یہ طے کرنا ناممکن ہے کہ ہماری غیر ڈیجیٹل زندگی کہاں ختم ہوتی ہے اور ہماری ڈیجیٹل زندگی کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ جب ہم سوتے ہیں تو ہمارے فون رات کی میز یا تکیے پر پڑے ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ اب باتھ روم میں فون بھی استعمال کرتے ہیں، اس بات کا احساس کئے بغیر کہ فون کے کیمرے ہیک ہوسکتے ہیں۔ وی پی این وہ لفافہ اور گوند ہے جس سے ہم اپنے خطوط سربمہر کرتے ہیں۔ وی پی این وہ کمرہ ہے جس میں ہم نجی طور پر بات کرنے کے لئے داخل ہوتے ہیں۔ وی پی این وہ دیواریں ہیں جو ہم دوسروں کی نظروں سے بچنے کے لئے لگاتے ہیں، وہ تالے جو ہم چوری سے بچنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ درحقیقت، وی پی این وہ گھر ہیں جن میں ہم رازداری اور وقار کی توقع کے ساتھ رہتے ہیں۔ کیا دہشت گرد اور مجرم وی پی این استعمال کرتے ہیں؟ مجھے یقین ہے کہ وہ ایسا کرتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے مجھے یقین ہے کہ وہ بھی گھروں میں رہتے ہیں اور اپنے کمروں کو نجی گفتگو کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اپنے سوٹ کیسوں کو بھی لاک کرتے ہیں اور اپنے خطوط پر مہر لگادیتے ہیں۔ ہمارا زیادہ تر کام اب کمپیوٹر یا انٹرنیٹ پر کیا جاتا ہے۔ ہم جو بھی کام تخلیق کرتے ہیں وہ ہماری دانشورانہ ملکیت اور اثاثہ بن جاتا ہے۔ تمام تخلیقی کام کتابیں، مضامین، کاروباری رپورٹس، سافٹ ویئر، موسیقی، آرٹ ورک، ویڈیوز، گیمز، وغیرہ - چوری ہونے کا خطرہ ہے جب ہم انہیں انٹرنیٹ پر بھیجتے ہیں، جب تک کہ ہم اپنے سوٹ کیس کو لاک نہ کریں (یعنی وی پی این استعمال کریں)۔ پاکستان میں گزشتہ چند ادوار کے دوران ہر حکومت نے تمام پاکستانی شہریوں کی تنقید اور ضمیر اور اظہار رائے کی آزادی کی نگرانی اور دباو¿ میں اضافہ کیا ہے۔ ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے آپ کو منتخب کیا اور آپ کی خدمات حاصل کیں اور آپ کو اپنے ملک کا انتظام کرنے کے لئے اپنے ٹیکسوں کے ذریعے ادائیگی کی، توقع کرتے ہیں کہ حکمران ہماری خدمت کریں گے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ندا رضوان فرید۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)۔