عالمی بالادستی: پاکستان اُور ٹرمپ

سرد جنگ کے دوران امریکہ کا قریبی اتحادی رہنے والے پاکستان کو ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی کامیابی اُور اپنی معاشی خوشحالی کے لئے امریکہ کی نئی انتظامیہ کی ممکنہ پالیسیوں کے مضمرات کا باریک بینی سے تجزیہ کرنا چاہئے۔ ایسا کرتے ہوئے پاکستان کے پالیسی سازوں کو نئی ٹرمپ انتظامیہ کے متوقع اسٹریٹجک تسلسل اور امریکی خارجہ پالیسیوں میں تبدیلیوں کو بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہوگی۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے امریکہ کا اسٹریٹجک ہدف عالمی بالادستی کو یقینی بنانا رہا ہے۔ پینٹاگون کی منصوبہ بندی سے متعلق ایک اہم دستاویز 1992ء میں  لیک ہوئی تھی جس میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ ”ہمارا (امریکہ کا) پہلا مقصد ایک نئے حریف کو دوبارہ ابھرنے سے روکنا ہے۔ جو پہلے سوویت یونین کی طرف سے پیش کردہ خطرے کے حکم پر ایک خطرہ ہے۔ ہماری حکمت عملی کو اب مستقبل کے کسی بھی ممکنہ عالمی حریف کے ابھرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔“ اس کے بعد سے یہ اسٹریٹجک ہدف ڈیموکریٹک اور ری پبلکنز دونوں طرح کی امریکی انتظامیہ کے تحت امریکی خارجہ اور سلامتی کی پالیسیوں کا محور رہا ہے۔ یہ نئی ٹرمپ انتظامیہ کے تحت امریکہ کی بیرونی پالیسیوں کی نمایاں خصوصیت بھی ہو گی لہٰذا چین کے اقتصادی اثر و رسوخ کو روکنے کی امریکی کوششیں، جسے وہ اپنے ڈرامائی عروج کی وجہ سے اپنا اہم ابھرتا ہوا حریف سمجھتا ہے، عالمی سطح پر اور خاص طور پر ایشیا بحرالکاہل کے خطے میں جاری رہے گی۔ واشنگٹن میں اس مسئلے پر دو طرفہ اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔چین پر قابو پانے کی امریکی پالیسی کے طور پر، امریکہ جاپان، جنوبی کوریا، فلپائن اور آسٹریلیا کے ساتھ اپنے اتحاد کو مضبوط کرے گا۔ چین پر قابو پانے کے لئے بھارت کے ساتھ اپنی اسٹریٹجک شراکت داری بڑھانے کی اپنی پالیسی پر بھی امریکہ قائم رہے گا جیسا کہ وہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران کرتا رہا ہے۔ یاد رہے کہ مارچ دوہزارپانچ میں واشنگٹن نے بھارت کو اکیسویں صدی میں عالمی طاقت بننے میں مدد دینے کے ارادے کا اعلان کیا تھا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ بھارت اور امریکہ کے درمیان بڑھتے ہوئے اسٹریٹجک تعاون کے پاکستان کی سلامتی اور اقتصادی خوشحالی پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ ٹرمپ کا ماضی کا ریکارڈ، انتخابی مہم کے دوران ان کے اعلانات اور مارکو روبیو کو وزیر خارجہ، پیٹ ہیگسیتھ کو وزیر دفاع اور مائیک والٹز کو قومی سلامتی کے مشیر کے طور پر نامزد کرنا ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ کی بیرونی اور سلامتی کی پالیسیوں کے طرز عمل میں ٹرمپ انتظامیہ کسی بھی دوسرے نقطہئ نظر سے زیادہ تنگ نظر ہے اُور اپنے قومی مفادات کو زیادہ عزیز رکھتی ہے لہٰذا، جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے، ٹرمپ کی انتخابی فتح کثیر الجہتی قوم پرستی، بین الاقوامی قانون اور اخلاقیات پر طاقت کی سیاست، نظریے پر لین دین پسندی اور لبرل بین الاقوامی تجارتی نظام پر محدود بین الاقوامی تجارتی پالیسیوں کی فتح کی نمائندگی کر رہی ہے۔ ٹرمپ کی نئی انتظامیہ کے تحت امریکہ کی بیرونی پالیسیوں میں نمایاں تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی جبکہ وہ اپنی عالمی بالادستی کو برقرار رکھنے کے اسٹریٹجک ہدف کی پیروی کریں گے۔ ایران کے جوہری پروگرام اور مشرق وسطیٰ میں مزاحمتی پالیسیوں کی وجہ سے امریکی دباؤ بڑھے گا۔ مشرق وسطیٰ میں ایک فریق کے لئے امریکہ کی حمایت کا سلسلہ بھی جاری رہے گا اُور جہاں تک یوکرین کا تعلق ہے، یوکرین کے لئے امریکی حمایت میں کمی آسکتی ہے جس سے ایک تصفیے کے دروازے کھل سکتے ہیں جو روس کے لئے سازگار ہو گا۔ نئی ٹرمپ انتظامیہ امریکی پالیسیوں میں اسٹریٹجک تسلسل اور تبدیلیاں پاکستان کی سلامتی اور معاشی خوشحالی پر گہرے اثرات مرتب کریں گی۔ اگر بھارت اور امریکہ کے درمیان قربت بڑھتی ہے تو پاکستان کو سلامتی اور اقتصادی شعبوں میں چین کے ساتھ قریبی تعاون پر مجبور ہونا پڑے گا۔اس تناظر میں سی پیک، جس نے 2015ء سے 2030ء کے درمیان پاکستان میں 62 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا تھا، اسٹریٹجک اور اقتصادی دونوں لحاظ سے پاکستان کے لئے دور رس اہمیت کا حامل ہے۔ یہ بھی پیش گوئی بھی کی جا سکتی ہے کہ بھارت اس منصوبے (سی پیک) کو کمزور کرنے کے لئے ظاہری اور پوشیدہ تمام ذرائع استعمال کرے گا۔ درحقیقت اس مقصد کے لئے بھارت پہلے ہی پاکستان بالخصوص بلوچستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں کی سرپرستی میں مصروف ہے۔ ٹرمپ کی نئی انتظامیہ پاکستان اور امریکہ کو چین، بھارت، ایران، اسلامو فوبیا اور مشرق وسطیٰ کے مسئلے سے متعلق متعدد تضادات کا سامنا کرنا پڑے گا جو مستقبل قریب میں دونوں ممالک کے درمیان اسٹریٹجک تعاون کو گہرا کرنے سے روکیں گے تاہم یہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان باہمی دوستی اور تعاون کی اہمیت کو کم کرنے کا باعث نہیں ہوگا۔ امریکہ عسکری اور معاشی طور پر دنیا کا سب سے طاقتور ملک ہے۔ یہ بڑی تعداد میں پاکستانی تارکین وطن کی میزبانی کے علاؤہ ہماری برآمدات کے لئے بھی اہم ہے۔ یہ 1950ء کی دہائی سے پاکستان کی معاشی اور فوجی امداد کا ذریعہ رہا ہے۔ یہ اپنی بے پناہ اقتصادی اور فوجی طاقت، اس کی غالب سافٹ پاور، عالمی اتحادوں کے نظام اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جیسے بین الاقوامی اداروں میں اپنے کلیدی عہدوں کی وجہ سے علاقائی اور عالمی سطح پر طاقتور اثر و رسوخ رکھتا ہے۔پاکستان، ایک جوہری طاقت، جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے چوراہے پر واقع ہے اُور مسلم دنیا میں اعتدال پسندی کی آواز ہے، جو اگلی چند دہائیوں میں اہم معاشی اور فوجی طاقت کے طور پر ابھرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ امریکہ کے لئے پاکستان کی اہمیت ہے اُور وہ پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور باہمی فائدے مند تعاون کو برقرار رکھنا دونوں ممالک کے باہمی مفاد میں ہے۔ سیکیورٹی کے شعبے میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان ماضی میں نشیب و فراز کے باوجود قریبی تعاون رہا ہے تاہم مستقبل میں سیکیورٹی روابط کو برقرار رکھتے ہوئے ہمیں امریکہ سے اپنی توقعات کو حقیقت پسندی کی حدود میں رکھنا ہوگا کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان اختلافات موجود ہیں لہٰذا ہمیں امریکہ سے اسلحے کی فراہمی پر زیادہ انحصار نہیں کرنا چاہئے۔ اسلام آباد اور واشنگٹن کو مبالغہ آمیز توقعات سے بچنے کے لئے اپنے تعلقات کی صلاحیت اور حدود دونوں سے آگاہ رہنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات برقرار رکھنے کے لئے پاکستان کی کوششوں کے ساتھ چین کے ساتھ تعاون کو فروغ دینے کی مستقل کوششیں بھی ہونی چاہئیں۔ سیاسی طور پر مستحکم اور معاشی طور پر مضبوط اور خود کفیل پاکستان ہی عالمی تعلقات کی رسی پر اپنا توازن برقرار رکھ سکے گا۔ (مضمون نگار سابق سفارتکار ہیں۔ بشکریہ دی نیوز۔ تحریر جاوید حسین۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)