برآمدات کسی بھی ملک کی ترقی کا واضح راستہ ہے لیکن بین الاقوامی مارکیٹوں میں غلبہ حاصل کرنا آسان نہیں ہوتا اور صرف مٹھی بھر کمپنیاں ہی اِس میں مہارت حاصل کرتی ہیں۔ ان غیرمعمولی کمپنیوں کو کیا چیز ممتاز بناتی ہے؟ وہ عالمی کامیابی کیسے حاصل کرتی ہیں جبکہ بہت سی دیگر کمپنیاں عالمی منڈی میں اپنے قدم جمانے کے لئے جدوجہد کرتی دکھائی دیتی ہیں؟ کلیدی حکمت ِعملیوں کی تلاش کی جائے جو فرموں کو بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے قابل بناتی ہیں اور زیادہ مسابقتی عالمی منظر نامے میں پھلنے پھولنے کے لئے ضروری ذہنیت فراہم کرتی ہیں۔ پاکستانی کمپنیاں معاشی چیلنجز سے نبرد آزما ہو کر ان عالمی رہنماؤں سے سبق سیکھ سکتی ہیں تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکیں۔برآمد کرنا صرف سرحدوں کے پار مصنوعات بھیجنے کے بارے میں نہیں۔ یہ ان مصنوعات کو غیرملکی منڈیوں کے تانے بانے میں اس طرح شامل کرنے کے بارے میں ہے جو انہیں پسندیدہ بناتا ہے۔ اس طرح کی بالادستی حاصل کرنے والی کمپنیاں صرف خوش قسمت نہیں۔ وہ اسٹریٹجک، قابل قبول اور لچکدار ہیں۔ وہ اپنی مارکیٹوں کا انتخاب بالکل درستگی کے ساتھ کرتے ہیں، مسلسل جدت اپناتے ہیں اور اپنے برانڈز کو مقامی ضروریات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے ہر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ ان کمپنیوں کی کہانی ہے جو برآمدات کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔ تصور کریں کہ ایک درمیانے سائز کی فرم مقامی مارکیٹ سے آگے بڑھانا چاہتی ہے۔ کمپنی کی قیادت جانتی ہے کہ طویل مدتی استحکام کے لئے بین الاقوامی ترقی ضروری ہے لیکن آگے کا راستہ چیلنجوں سے بھرا ہوا ہے۔ کامیاب برآمد کنندگان سمجھتے ہیں کہ صحیح مارکیٹ کا انتخاب بہت ضروری ہے۔ بیک وقت متعدد ممالک میں داخل ہو کر خود کو پھیلانے کے بجائے، وہ اپنی توجہ اور کوششیں منتخب علاقوں پر مرکوز کرتے ہیں جہاں ان کی مصنوعات پھل پھول سکتی ہیں۔ یہ اندازہ لگانے کا معاملہ نہیں ہے بلکہ محتاط منصوبہ بندی کا معاملہ ہے لیکن صحیح مارکیٹ کا انتخاب کاروباری سفر کا صرف آغاز ہوتا ہے۔ ایک بار وہاں پہنچنے کے بعد، یہ کمپنیاں مقامی صارفین کی ترجیحات کو سمجھنے میں بھاری سرمایہ کاری کرتی ہیں۔ دنیا کی پسند و ناپسند یکساں نہیں ہے۔ پاکستان سے کوپن ہیگن تک ذائقے وسیع پیمانے پر مختلف ہیں اور برآمدات پر غلبہ رکھنے والی کمپنیاں اپنی پیش کشوں کو مقامی اقدار کے ساتھ ہم آہنگ بناتی ہیں۔ وہ نہ صرف اپنی مصنوعات بلکہ اپنے پیغام رسانی کو بھی مقامی بناتی ہیں، نئے گاہکوں کے درمیان اعتماد کو فروغ دینے کے لئے ثقافتی باریکیوں سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ جب آپ دیکھتے ہیں کہ کس طرح کچھ کمپنیاں کامیابی کے ساتھ اپنی مارکیٹنگ کی حکمت عملی کو اپناتی ہیں تو، آپ کو احساس ہوتا ہے کہ برآمد کرنا تعلقات کی تعمیر کے بارے میں اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ مصنوعات کی فروخت اہم ہوتا ہے۔ آج کی ہائپر کنیکٹڈ دنیا میں‘ جدت ہی حقیقی فرق ہے۔ وہ کمپنیاں جو عالمی مارکیٹوں میں سب سے نمایاں ہوتی ہیں وہ مسلسل آگے رہنے کے طریقے تلاش کرتی رہتی ہیں اور یہ عمل صرف بہتر مصنوعات بنانے تک محدود نہیں ہے۔ یہ آپریشنز کو ہموار کرنے، سپلائی چین کو بہتر بنانے اور مارکیٹ کی تبدیلیوں کی پیش گوئی کرنے کے لئے اعداد و شمار سے فائدہ اٹھانے کے بارے میں بھی ہے۔ ٹیکنالوجی اِس مرحلے پر اہم کردار ادا کرتی ہے، جس سے کمپنیوں کو اخراجات میں کمی کرنے، کارکردگی میں اضافہ اور قابل اعتماد ساکھ برقرار رکھنے کا موقع ملتا ہے۔ اِس تناظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر پاکستان کا جائزہ لیا جائے تو کہانی واضح طور پر مختلف نظر آتی ہے۔ پاکستانی کمپنیوں کے پاس بین الاقوامی سطح پر کامیابی حاصل کرنے کی صلاحیت تو موجود ہے لیکن انہیں ایک مشکل ماحول کا سامنا ہے۔ چیلنجز صرف داخلی نہیں بلکہ ان کی جڑیں ملک کے میکرو اکنامک ماحول میں گہرائی سے پیوست ہیں۔ مثال کے طور پر، پاکستان کا ٹیکس نظام درآمدی ڈیوٹیوں کی طرف بہت زیادہ جھکا ہوا ہے، جس میں ملک کے ٹیکس ریونیو کا تقریباً نصف حصہ کسٹم ٹیکسوں کا ہے۔ یہ ڈھانچہ نادانستہ طور پر برآمد کنندگان کو پیداوار کے لئے درکار درآمد شدہ خام مال کی لاگت میں اضافے کی صورت سزا دیتا ہے۔ ایک ایسے کاروبار کے لئے جو پہلے سے ہی کم منافع کے مارجن پر چل رہا ہو، یہ اضافی اخراجات نقصان دہ ہوتے ہیں۔ اس کے بعد پاکستانی روپے کا مسئلہ ہے، جس کی قدر میں حالیہ برسوں کے دوران تیزی سے کمی آئی ہے۔ سب سے کم زیر بحث لیکن اہم رکاوٹ میڈ اِن پاکستان کا لیبل بھی ہے۔ پرہجوم عالمی مارکیٹ میں، برآمدی کارکردگی کا تعین اکثر صرف تکنیکی یا عنصر انڈومنٹ اختلافات کے بجائے ساکھ کے تقابلی فوائد سے کیا جاتا ہے اگرچہ میڈ ان جرمنی یا میڈ ان جاپان معیار کی طرف اشارہ کرتے ہیں لیکن میڈ ان پاکستان ’لیبل‘ بھی اچھی ساکھ کے لئے جدوجہد کر رہا ہے اور اگر اِس پر خاطرخواہ توجہ دی جائے تو پاکستانی کمپنیوں کے لئے بیرون ملک اپنی ساکھ بہتر بنانے سے نئے مواقع پیدا ہوسکتے ہیں۔ مصنوعات کے معیار کو بہتر بنانے اور بین الاقوامی معیار کے مطابق ڈھالنے پر توجہ مرکوز کرکے، کمپنیاں ’میڈ ان پاکستان‘ ہونے کا مطلب ازسرنو تخلیق کر سکتی ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ افریقہ، وسطی ایشیا اور مشرقی ایشیا جیسے خطوں میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت مواقع موجود نہیں۔ سی پیک سے جڑی ابھرتی ہوئی مارکیٹوں کو تلاش کرکے اور مصنوعات کی پیش کشوں کو بڑھا کر، پاکستانی کمپنیاں اپنی کمزوریوں پر قابو پا سکتی ہیں جس سے کامیابی کے امکانات بڑھ سکتے ہیں اور آمدنی کے نئے ذرائع (مواقع) مل سکتے ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ندیم جاوید۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
پاک بھارت تعلقات: نازک صورتحال
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
ہتھیار برائے امن
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شعبہ ئ تعلیم: اصلاحات و تصورات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
امریکی سیاست اور دفاعی اخراجات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
فضائی آلودگی اور ہمارے شہر
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام