کرہئ ارض‘لاحق خطرات

انسان کرہئ ارض کے وسائل کا استحصال کر رہے ہیں جس سے بے مثال خطرات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہوا اور پانی آلودہ ہو چکے ہیں جبکہ صنعت کاری، آبادی میں اضافہ اور وسائل کی غیر پائیدار کھپت نے جنگلات کی کٹائی، آلودگی اور آب و ہوا کی تبدیلی جیسے منفی محرکات کو جنم دیا ہے یہ تمام ایسے چیلنجز ہیں جن پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے‘ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک موسمیاتی تبدیلیوں کا غیر متناسب بوجھ برداشت کر رہے ہیں جبکہ ماحولیاتی نقصانات سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لئے وسائل کی کمی ہے۔ گزشتہ 200 برس کو دیکھا جائے تو اِس عرصے کے دوران ماحولیاتی انحطاط میں تیزی آئی ہے جبکہ آبادی بڑھنے کے تناسب کے مقابلے قدرتی وسائل میں کمی واقع ہوئی ہے۔ قدرتی وسائل کے تحفظ کی جاری کوششوں میں ماحولیاتی حقوق کے تصور نے بھی عالمی توجہ حاصل کی ہے، جس میں کرہئ ارض اور انسانی فلاح و بہبود دونوں کے تحفظ کے لئے قانونی فریم ورک تیار کئے گئے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ بہت سے بین الاقوامی معاہدے اور تقریبا سبھی ممالک کے آئین اب صحت مند ماحول کی ضرورت کو تسلیم کر رہے ہیں۔زمین کی صحت براہئ راست انسانی بقاء کو متاثر کر رہی ہے۔ پائیدار مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے ہمیں ماحول دوست طریقوں کو اپنانا ہوگا اور فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کو ترجیح دینی ہوگی‘ ماحول کا تحفظ ہمارے قدرتی ورثے کو محفوظ رکھتا ہے اور سب کے لئے منصفانہ اور خوشحال مستقبل کو یقینی بناتا ہے۔ اِن چیلنجوں سے نمٹنے کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے‘ بین الاقوامی برادری نے ماحولیات کے تحفظ کے لئے قانونی فریم ورک تیار کرنے میں اہم پیش رفت کی ہے۔ بین الاقوامی معاہدوں‘ علاقائی کنونشنوں اور گھریلو قوانین پر مشتمل فریم ورک آنے والی نسلوں کے لئے پائیدار مستقبل کو یقینی بنانا چاہتا ہے۔صنعتی انقلاب، جو قابل ذکر تکنیکی ترقی کا دور تھا، نے نادانستہ طور پر کرہئ ارض پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ زرعی پیداوار اور ضرورت سے زیادہ زرعی پیداوار کے مسلسل تعاقب کے نتیجے میں قدرتی وسائل کا استحصال ہوا ہے۔ نقصان دہ آلودگی کا اخراج اور نازک ماحولیاتی نظام میں تبدیلی آئی ہے۔ جیسے جیسے انسانی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اور کھپت میں اضافہ ہوا ہے ویسے ویسے ماحول پر دباؤ بھی تیزی سے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے دور میں پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں قانون کی مؤثر حکمرانی کی عدم موجودگی، کمزور گورننس، بڑے پیمانے پر بدعنوانی، گہری معاشرتی عدم مساوات، وسیع پیمانے پر غربت اور عام لوگوں کی فلاح و بہبود کو نظر انداز کرنے جیسے عوامل شامل ہیں۔ مزید برآں، کان کنی کے غیر پائیدار طریقے، نقصان دہ زرعی تکنیک، غیر محفوظ صنعت کاری اور غیر منصوبہ بندی شہرکاری ماحولیاتی انحطاط اور سماجی مسائل بھی اِس صورتحال کی خرابی میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔جنگلات کی کٹائی، پانی کی قلت، فضائی آلودگی اور فضلے کی بدانتظامی چند ایسے اہم مسائل ہیں جو پاکستان کے ماحولیاتی توازن اور اس کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے خطرہ ہیں۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد (2022ء) اور انسانی حقوق کونسل کی قرارداد (2021ء) اسٹاک ہوم اعلامیہ (1972ء) اور ریو اعلامیہ (1992ء) جیسے سنگ میل کی پیروی کرتے ہوئے صاف، صحت مند اور پائیدار ماحول کی توثیق ہوئی اور اِن منجملہ کوششوں سے ماحولیاتی حکمرانی میں پائیدار ترقی اور عوامی شرکت کے اصولوں کو متعارف کرایا گیا۔ کنونشن آن بائیولوجیکل ڈائیورسٹی (سی بی ڈی) اور آرہوس کنونشن جیسے معاہدے حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور ماحولیاتی معلومات اور انصاف تک رسائی پر توجہ مرکوز کرکے ان حقوق کو مزید بڑھاتے ہیں۔ علاقائی طور پر، انسانی اور عوامی حقوق پر افریقی چارٹر (آرٹیکل 24) اور لاطینی امریکہ میں ایسکازو معاہدہ جیسے فریم ورک واضح طور پر ماحولیاتی حقوق کا تحفظ کرتے ہیں۔ترقی پذیر ممالک پائیدار زراعت، جنگلات کی بحالی اور قابل تجدید توانائی جیسے شمسی، ہوا، بائیو گیس اور ہائیڈرو پاور کے ساتھ ماحولیاتی چیلنجوں سے نمٹ رہے ہیں تاکہ فوسل ایندھن پر انحصار اور اخراج کم کیا جاسکے۔ ری سائیکلنگ، کمپوسٹنگ اور فضلے سے توانائی پیدا کرنے والے پلانٹس کے ذریعے فضلے کا مؤثر انتظام کر کے آلودگی کا پھیلاؤ کم کیا جا سکتا ہے جبکہ پانی کے تحفظ کی کوششیں جیسے بارش کا پانی جمع کرنا، مؤثر آبپاشی اور بنیادی ڈھانچے کی مرمت مہنگے ڈیموں کے بغیر پانی کی کمی کو دور کرتی ہیں۔ آلودگی پر قابو پانا، قواعد و ضوابط کا نفاذ اور محفوظ علاقوں اور کمیونٹی پر مبنی اقدامات کے ذریعے حیاتیاتی تنوع کا تحفظ بھی یکساں اہم ہے۔ قابل اعتماد توانائی کے وسائل، ڈیجیٹل رابطہ کاری اور تکنیکی ترقی اقتصادی تبدیلی کے لئے اہم ہیں۔ یہ جامع حکمت عملی نہ صرف ماحول کے تحفظ کو یقینی بناتی ہے بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے باشعور دنیا میں پاکستان کے لئے پائیدار ترقی کے مواقع بھی کھولتی ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر مرتضیٰ کھوڑو۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔