پاکستان کو معاشی ترقی اور بڑھتی ہوئی غربت کا مقابلہ کرنا ہے جس کیلئے طرزحکمرانی میں اصلاح اور بدعنوانی پر قابو پانا ہوگا۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ اِن محرکات کی وجہ سے پاکستان ناکام ریاست بننے کے دہانے پر پہنچ چکا ہے اور وقت ہے کہ ملکی ترجیحات کی سمت تبدیل کی جائے۔ موجودہ منظرنامے میں سیاسی عدم استحکام طویل عرصے سے پاکستان کو متاثر کر رہا ہے، جس کی وجہ سے گورننس اور معاشی منصوبہ بندی متاثر ہے۔ قیادت میں بار بار تبدیلیوں کے نتیجے میں متضاد پالیسیاں سامنے آئی ہیں جس کی وجہ سے طویل مدتی اصلاحات پر عمل درآمد مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن حد تک دشوار ہو گیا ہے۔ سال دوہزارسترہ میں نواز شریف اور سال دوہزار بائیس میں عمران خان جیسی حکومتوں کی اچانک برطرفی نے غیر یقینی صورتحال پیدا کی ہے اور ملکی و غیرملکی سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ توجہ طلب ہے کہ دیگر محرکات کے علاوہ بدعنوانی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ کئے ہوئے ہے۔ مؤثر انصاف کا فقدان، رشوت یا سیاسی دباؤ کے ذریعے پسندیدہ فیصلے حاصل کرنے کے لئے عدالتی نظام پر کنٹرول، عوامی فنڈز کی بدانتظامی، اقربا پروری اور رشوت خوری تمام اداروں میں پھیلی ہوئی ہے۔ پاناما پیپرز میں سامنے آنے والے ہائی
پروفائل اسکینڈلز نے سرکردہ سیاست دانوں کو ملوث کیا ہے اور عوام کا اعتماد کھو دیا ہے۔ لاہور میں اورنج لائن ٹرین جیسے منصوبوں کو لاگت میں اضافے اور وسائل کی غلط تقسیم کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ کس طرح کرپشن ترقیاتی کاموں کے لئے مختص فنڈز کو ضائع کرنے کا باعث بن رہی ہے۔ بلدیاتی انتخابات کرانے اور بلدیاتی نظام کے نفاذ کے لئے فنڈز اور اختیارات نچلی سطح تک منتقل کرنے میں ہچکچاہٹ نے جمہوریت کا مذاق اڑایا ہے۔ غیر مؤثر ٹیکس نظام معاشی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ عالمی سطح پر سب سے کم ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب کے ساتھ، پاکستان فی آمدنی بڑھانے کے لئے جدوجہد کر رہا ہے جبکہ دوسری طرف فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) ٹیکس نیٹ کو مؤثر طریقے سے بڑھانے میں ناکام ہے۔ سیلز ٹیکس جیسے بالواسطہ ٹیکسوں پر بہت زیادہ انحصار کیا جا رہا ہے، جس سے ٹیکس سرمایہ داروں کی بجائے غریبوں پر عائد ہے اور یہ غیر متناسب طور پر غریبوں کو زیادہ متاثر کر رہا ہے۔ چوبیس کروڑ سے زائد آبادی میں سے صرف تیس لاکھ افراد فعال ٹیکس دہندگان ہیں جس کی وجہ سے حکومت مالی طور پر مجبور ہے۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں تعلیم و صحت کے شعبوں کے ساتھ ساتھ فنڈز کا ایک بڑا حصہ صوبوں کو منتقل ہوا جس سے قومی سطح پر افراتفری اور خلل پیدا ہوا ہے۔ بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ تباہ کن طویل مدتی معاہدے کرنے والی بدعنوان حکومتوں کی جانب سے پیدا کردہ توانائی کے بحران نے ملک میں صنعتی ترقی کے امکانات کو تباہ کر دیا ہے اور بڑے پیمانے پر بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی غربت کی وجہ سے صنعتوں کا بڑا حصہ بند ہے جبکہ سیاسی رہنماؤں نے غیر قانونی طور پر حاصل کردہ فنڈز کو لندن اور دیگر مقامات پر محفوظ پناہ گاہوں میں منتقل کر دیا ہے۔ بجلی کی دائمی قلت اور توانائی کی زیادہ لاگت پیداوار میں خلل کا باعث ہے۔ توانائی کے شعبے میں گردشی قرضہ 2.5 کھرب روپے سے تجاوز کر گیا ہے جس نے معاشی بحران کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ زراعت پر حد سے زیادہ انحصار پاکستان کے
معاشی تنوع کو محدود کئے ہوئے ہے۔ زراعت تقریبا چالیس فیصد افرادی قوت کو روزگار فراہم کرتی ہے لیکن جی ڈی پی میں اِس سے حاصل ہونے والی آمدنی کا حصہ صرف 22 فیصد ہے۔ کاشت کاری کی فرسودہ تکنیک، پانی کی قلت اور آبپاشی کے ناکارہ نظام کی وجہ سے زرعی پیداوار کم ہے۔ پاکستان کی صنعتی بنیاد کم ترقی یافتہ ہے اور ٹیکسٹائل جیسی کم ویلیو ایڈڈ مصنوعات پر حد سے زیادہ انحصار کیا جاتا ہے۔ ہائی ویلیو ایڈڈ ہائی ٹیک مصنوعات تقریبا نہ ہونے کے برابر ہیں اور یہ ہماری کم برآمدات کی بڑی وجہ ہے۔ بنگلہ دیش کے برعکس‘ جس نے کامیابی کے ساتھ اپنی برآمدات کو متنوع بنا کر اعلیٰ معیار کے ملبوسات اور دیگر شعبوں کو شامل کیا ہے‘ پاکستان اب بھی صنعتوں کی محدود رینج میں پھنسا ہوا ہے۔ تنوع کی یہ کمی معیشت کو عالمی مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ کا شکار بناتی ہے اور پائیدار ترقی میں رکاوٹ ہے۔ سال دوہزاردو میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے قیام کے بعد ابتدائی دہائی کے دوران ہماری یونیورسٹیوں کی جانب سے کی جانے والی شاندار پیش رفت کے باوجود ملک کے تعلیمی نظام نے ایک مضبوط علمی معیشت کی ترقی میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ (بشکریہ دی نیوز۔تحریر ڈاکٹر عطا الرحمن۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)