ڈیجیٹل ترقی

ڈیجیٹل ترقی، عمارتیں بنانے یا سڑکیں بنانے کی طرح نہیں بلکہ یہ لوگوں کو بلاتعطل انٹرنیٹ اور اس سے وابستہ تمام خدمات کی فراہمی یقینی بنانے کا نام ہے۔ سال دوہزارچوبیس کے آغاز سے پاکستان میں انٹرنیٹ سست رفتاری کا شکار ہے جس کی وجہ سمندر میں بچھی انٹرنیٹ کیبلز کو پہنچنے والا نقصان بتایا جاتا ہے جبکہ سماجی رابطہ کاری کی ویب سائٹس پر پابندی اور ویب منیجمنٹ سسٹم کو اپ گریڈ کر کے قومی سطح پر فائر وال لگانے سے ’واٹس ایپ‘ کے ذریعے پیغام رسانی آسان نہیں رہی اور ورچول پرائیویٹ نیٹ ورکس (وی پی اینز) بھی بلاک کر دیئے گئے ہیں۔ پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے وی پی اینز رجسٹریشن کرنے کا اعلان کیا ہے جس کا جواز دہشت گرد سرگرمیوں اور ’غیراخلاقی‘ مواد کو روکنے کا روایتی بیانیہ ہے لیکن پی ٹی اے کا رجسٹریشن عمل جس کی ڈیڈلائن بڑھا دی گئی ہے، سب کے لئے نہیں۔ ان کے رجسٹریشن فارم میں دو آپشن ہیں، ایک کمپنی اور دوسرا انفرادی جس کے اہل صرف فری لانسرز ہوں گے۔ اندراج کے لئے سب سے پہلے ایک اکاؤنٹ بنانا ہوگا جس کے لئے کمپنی کا نام، بزنس کی نوعیت، فون نمبر، ایڈریس، فرد کا نام، اس کا ای میل، موبائل نمبر اور شناختی کارڈ نمبر، کمپنی کے سی ای او یا سربراہ کا ای میل ایڈریس وغیرہ جیسی اور دیگر بہت سی معلومات و تفصیلات فراہم کرنا ہوں گی۔ سوال یہ ہے کہ فری لانسر کسے کہا جاتا ہے؟ ایسے پیشہ ور جو قلیل یا طویل مدت کے لئے مختلف کمپنیز کے ساتھ کام کرتے ہیں لیکن وہ اُن کمپنیوں کے باقاعدہ ملازم نہیں ہوتے تو اِن کے لئے ’فری لانسر‘ کی اصطلاح استعمال کرنا پڑتی ہے چونکہ فری لانسر ہونا مستقل ملازمت نہیں ہوتی اور اِس سے آمدنی بھی مستقل بنیادوں پر نہیں ہو رہی ہوتی اِس لئے فری لانسرز اپنی رجسٹریشن نہیں چاہتے اور وہ یہ بھی نہیں چاہتے کہ جن کمپنیوں کے لئے وہ کام کر رہے ہیں اُن کے بارے میں معلومات فراہم کریں کیونکہ بسا اوقات ’کلائنٹ پرائیویسی‘ کامیاب  فری لانسنگ کے لئے ضروری ہوتی ہے۔وی پی اینز کے ذریعے انٹرنیٹ تک رسائی کرنے والوں میں طلبہ، صحافی، محققین اور چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والے شامل ہیں۔ تعجب خیز ہے کہ انٹرنیٹ کی نگرانی کا عمل تو انتہائی سخت ہے لیکن ڈیٹا کی حفاظت کے لئے کوئی قانون نہیں، سائبرکرائمز اور انسداد دہشت گردی کے قوانین توڑ مروڑ کر مطلوبہ افراد کو نقصان پہنچانے، ناقدین کی آواز کو دبانے اور آن لائن پلیٹ فارمز کی بندش کی جا رہی ہے جبکہ ریگولیٹر کسی کو جوابدہ نہیں۔ فیصلے قوانین کے مطابق نہیں بلکہ ایگزیکٹو ذاتی ترجیحی بنیادوں پر لیتی ہے‘ وہاں لوگوں کی پرائیوسی کو خطرے میں ڈالنے کے بجائے ڈیٹا کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے مزید سخت اقدامات ہونے چاہئیں۔ انٹرنیٹ صارفین رازداری (پرائیویسی) کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ اُن کے گھر سے نکلنے‘ کاروبار کرنے اور اُن کے رابطوں کے حوالے سے معلومات عام ہوں۔ درحقیقت جب روزمرہ سرگرمیوں میں رازداری نہیں رہتی اور کسی شخص کو یہ لگے کہ اُس پر کوئی ممکنہ طور پر نگاہ رکھے ہوئے ہے تو اِس سے اُس کی شخصیت میں اعتماد نہیں آتا۔ صارفین کی اکثریت نہیں چاہتی کہ اُن کی نقل و حرکت اُور آن لائن سرگرمیوں کے کوائف مرتب ہوں اور ایک ایسے ملک میں جہاں ڈیٹا چوری اور لیک ہونا معمول کی بات بن چکا ہے تو اہم شخصیات کے پاس صرف دو ہی راستے ہیں کہ یا تو وہ غیرقانونی طور پر وی پی اینز کا استعمال کریں یا انٹرنیٹ کا استعمال ترک کر دیں۔ رجسٹر وی پی اینز کا استعمال ’ٹریکر‘ لگانے جیسا ہے جس کے استعمال سے کسی صارف کی نقل و حرکت کو دیکھا جا سکتا ہے۔ غیرقانونی وی پی اینز کے استعمال پر پابندی عائد کر کے اور آن لائن نگرانی کا عمل زیادہ سخت بنا کر صارفین کا ذاتی ڈیٹا جمع کرنا مسئلے کا حل نہیں بلکہ حکومتی ادارے اپنی مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں کیونکہ اگر کسی بھی صارف کی سرگرمیوں کی تفصیلات چوری‘ لیک یا ہیک ہوئیں تو اِس سے انٹرنیٹ استعمال کرنے والے دس کروڑ سے زیادہ پاکستانیوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی اور خود کو پہلے سے زیادہ غیرمحفوظ تصور کرنے لگیں گے۔ (بشکریہ ڈان۔ تحریر فریحہ عزیز۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)