سماجی ارتقائ

جنوبی کوریا میں مارشل لا¿ نافذ کرنے کی کوشش ناکام بنا دی گئی ہے۔ جنوبی کوریا دنیا میں اعلیٰ ترین تعلیمی نظام رکھنے والا ملک ہے‘ جہاں کی مضبوط معیشت اور شرح خواندگی کی وجہ سے مارشل لا¿ نافذ نہیں ہو سکا۔ ممکنہ مارشل لا¿ کے خلاف عوام سڑکوں پر نکل آئے جس کے بعد صدر یون سک یول کی جانب سے مارشل لا کا اعلان چند ہی گھنٹوں بعد واپس لے لیا گیا۔جنوبی کوریا میں مارشل لا اور فوجی بغاوت کی طویل تاریخ رہی ہے۔ پندرہ اگست 1948ءکو جمہوریہ کوریا کے قیام میں آنے کے بعد ملک میں چالیس برس تک فوجی آمرانہ حکومت تھی جس میں بار بار مارشل لا¿ لگائے گئے تاہم جب جنوبی کوریا کے عوام نے اپنے آخری آمر کو 1987ءمیں صدارتی نظام تسلیم کرنے پر مجبور کیا تب اس کے بعد سے لگتا ہے کہ وہاں کے عوام جمہوریت کو ترجیح دینے لگے ہیں۔مارشل لا¿ کی توثیق کا اختیار جنوبی کوریا کی پارلیمنٹ کے پاس ہے جس نے صدر کے فیصلے کے ساتھ بالکل بھی اتفاق نہیں کیا۔ صدر کی جماعت، پی پی پی یا پیپلز پاور پارٹی نے کسی ابہام سے بچنے کے لئے اپنے صدر اور کابینہ سے فوری طور پر ناکام مارشل لا¿ کی ذمہ داری اٹھانے اور مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے خصوصی طور پر وزیر دفاع کا استعفیٰ طلب کیا۔ سیکرٹریز پہلے ہی مستعفی ہوچکے تھے۔ یہ ابھی واضح نہیں کہ آیا پی پی پی، صدر یون سک یول سے پارٹی رکنیت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتی ہے یا نہیں۔ مارشل لا¿ کے انتہائی غیرمقبول اقدام کی وجہ سے صدر کو پہلے ہی مواخذے کا سامنا ہے جبکہ ملک کی سپریم کورٹ جائزہ لے گی کہ مارشل لاءکا حکم دینے کے لئے طریقہ کار کو پورا کیا گیا تھا یا نہیں۔جنوبی کوریا کی فوج کا کردار بھی عجیب ہے۔ ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ کھڑکیاں توڑ کر پارلیمنٹ میں داخل ہونے کے لئے انہیں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا لیکن انہوں نے عام شہریوں پر گولیاں نہیں چلائیں۔ یہ کافی غیر معمولی تھا بالخصوص دنیا کے جس حصے میں ہم رہتے ہیں، یہ عجیب منظر تھا۔ شاید ہمارے خطے میں زیادہ تر ممالک کو یہ شعور آگیا ہے کہ طاقت کے ذریعے حکمرانی نہیں کی جا سکتی۔ بنگلہ دیش کی ہی مثال لے لیجئے جہاں شیخ حسینہ کی حکومت کا تخت الٹنے کے بعد فوج نے بھی خاموشی سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور وہاں عبوری حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ ایسا نہیں تھا کہ بنگلہ دیش کی فوج کے پاس وجوہات یا بہانے نہیں تھے جن کا سہارا لے کر وہ ملک کو اپنے کنٹرول میں لے سکتے تھے لیکن فوجی سربراہ کو ادراک تھا کہ اس وقت جب ملک تاریخ کے اہم ترین موڑ پر کھڑا صہے، ایسے میں عوام کو اپنے کنٹرول کرنے کا اقدام سنگین غلطی ہوگی۔ (بشکریہ ڈان۔ تحریر عباس ناصر۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)

 جمہوری چینلجز سے نمٹنے والے دیگر ممالک کو اس عالمی منظرنامے سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔
 غیرجمہوری طرز حکمرانی دنیا بھر میں مسترد کیا جارہا ہے‘ حتیٰ کہ وہ ممالک جہاں آمرانہ ادوار کی طویل تاریخ رہی ہے وہاں بھی سوچ تبدیل ہوئی ہے اور اگر اِس پوری صورتحال کو پولیٹیکل سائنس کی اصلاحات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ سب سماجی ارتقاءکا نتیجہ ہے۔