شمسی توانائی‘ ترجیحات

توانائی کے وسائل کی کمی اور قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے عوام پریشان ہیں۔ دوسری طرف جن لوگوں نے سولر سسٹم لگانے میں سرمایہ کاری کی ہے وہ اِس بات سے پریشان ہیں کہ حکومت پاور گرڈز کی جانب سے سولر سسٹم استعمال کرنے والوں کے لئے پے بیک ٹیرف کم کرنے پر غور کر رہی ہے۔ لوگ اپنے گھروں میں بجلی اور گیس کی کمی سے پریشان تھے اور بہت سے لوگوں نے اپنے گھروں کی چھتوں پر شمسی پینل لگانے کا فیصلہ کیا تاکہ بھاری بلوں کی ادائیگی سے خود کو بچایا جاسکے لیکن یہ حربہ بھی کارآمد نہیں رہے گا۔ شمسی پینل سسٹم نصب کرنا کوئی عام بات نہیں کیونکہ اِن کی قیمت ایک عام آدمی کی قوت خرید سے زیادہ ہوتی ہے۔ شمسی نظام نصب کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ایک بار جب وہ سرمایہ کاری کر لیں گے‘ چاہے وہ کتنی ہی بھاری کیوں نہ ہو‘ انہیں مستقبل میں مستقل بنیادوں پر مالی راحت ملے گی لیکن ایسا نہیں ہے۔ پاکستان کی معیشت مشکلات سے دوچار ہونے کے باوجود اِس کے فیصلہ ساز گھریلو اور صنعتی شمسی توانائی کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں۔حال ہی میں وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کہا کہ پانچ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ختم کئے جائیں گے جس سے سالانہ 411 ارب روپے کی بچت ہوگی اور بجلی صارفین پر بوجھ ساٹھ ارب روپے کم ہوگا۔ پہلے مرحلے میں حبکو، لال پیر، صبا پاور، روس پاور اور اٹلس پاور کے ساتھ معاہدے ختم کئے جائیں گے تاہم اِن فیصلوں پر تاحال پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ سولر پینل کے ٹیرف کو موجودہ اکیس روپے فی یونٹ سے کم کرکے ساڑھے سات روپے فی یونٹ کرنے کا ارادہ انتہائی قابل اعتراض ہے۔ اگر ایسا عملاً کیا گیا تو اِس سے شمسی توانائی (نیٹ میٹرنگ سسٹم) بے سود ہو کر رہ جائے گی۔ حکومت بیوروکریسی کے حجم اور اس کی مراعات میں زبردست کمی کرکے بھی اخراجات میں کمی لا سکتی ہے جبکہ شمسی نظام کے گھریلو صارفین پر بوجھ ڈالنا قطعی دانشمندی نہیں ہے۔ کچھ پاور پلانٹس اور بہت سے ڈی آئی ایس سی اوز کو نجکاری کے لئے مختص کیا گیا تھا لیکن وہ اب بھی کام کر رہے ہیں۔ بڑے شہروں جیسا کہ لاہور کے لئے لیسکو، فیصل آباد کے لئے فیسکو اور پشاور کے لئے پیسکو وغیرہ کے نام پر ڈی آئی ایس سی اوز کا نام رکھنے کے علاؤہ بجلی کی فراہمی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ تاہم، ان کمپنیوں میں زیادہ عملہ ہے اور ان کی سربراہی سی ای اوز کرتے ہیں جو ہر ماہ لاکھوں روپے تنخواہ لے رہے ہیں۔ پبلک سیکٹر کے دیگر منصوبے بھی ہیں، جنہیں بلیک ہول کہا جاتا ہے اور یہ قومی خزانے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر پی آئی اے کی نجکاری ٹیکس دہندگان کے صبر کا امتحان لے رہی ہے۔ قومی ائر لائن نے عوام کا اربوں روپے کھا لیا ہے لیکن اس کی نجکاری کی ذمہ داری سنبھالنے والے متعلقہ حکام کبھی کبھار نازیبا بیانات دیتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات دوست ایک دوسرے سے شرط لگاتے ہیں کہ آخر کار پی آئی اے کی نجکاری کی جائے گی یا کچھ سرکاری عہدیدار اور مفاد پرست عناصر اسے پبلک سیکٹر میں رکھنے کا راستہ تلاش کریں گے۔ جب نجی شعبے میں ائربلیو اور ائر سیال کامیابی سے کام کر رہی ہیں تو پی آئی اے کیوں نہیں کر سکتی؟ خسارے میں چلنے والی ایک اور بڑی کمپنی پاکستان اسٹیل ملز ہے۔ ایک وقت تھا جب روس اور چین نے اسے حاصل کرنے کی پیش کش کی تھی۔ سیاسی مفادات کی وجہ سے اس معاملے کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ پیپلز پارٹی نے پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری کی کھل کر مخالفت کی تھی۔ بنیادی بات یہ ہے کہ عوام کے ٹیکس سے جمع ہونے والے وسائل کی قدر کرنی چاہئے۔ پی آئی اے اورپاکستان اسٹیل ملز جیسے خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری ترجیحی بنیادوں پر ہونی چاہئے۔ معیشت کی بحالی کے لئے ضروری ہے کہ تجارتی پیمانے کو مدنظر رکھتے ہوئے ترقیاتی منصوبے شروع کئے جائیں اور شمسی توانائی جیسی جدت کو عام کرنے کے لئے اِس شعبے کے لئے مراعات کا اعلان کیا جائے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر افتخار اے خان۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)