امریکہ کے کاروباری ادارے ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے پر خوش نظر آ رہے ہیں۔ ٹیسلا‘ ایکس ڈاٹ کام اور اسپیس ایکس کے بانی ایلون مسک ایسی کاروباری شخصیات میں سرفہرست ہیں جبکہ وہ ’وویک راماسوامی‘ کے ساتھ نئے ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفی شینسی (ڈی او جی ای) کے شریک چیئرمین ہوں گے۔ ہیج فنڈ منیجر سکاٹ بیسنٹ امریکی وزیر خزانہ بننے جا رہے ہیں۔ ایک سرمایہ کاری بینکر ہاورڈ لٹنک وزیر تجارت کے طور پر خدمات انجام دیں گے۔ توانائی کے صنعت کار کرس رائٹ کو وزیر توانائی نامزد کیا گیا ہے۔ اجناس اور مالیاتی خدمات کی ماہر کیلی لوفلر سمال بزنس ایڈمنسٹریشن کی ایڈمنسٹریٹر کے طور پر سربراہ ہوں گی۔ ٹرمپ دوم کے دور میں ایک اہم تبدیلی رونما ہو رہی ہے جس میں 13 ارب پتی اور معروف کاروباری شخصیات ان کی کابینہ میں شامل ہوں گی۔ اس لائن اپ میں فنانس، توانائی، ٹیکنالوجی اور کامرس جیسی صنعتوں میں وسیع تجربہ رکھنے والے افراد شامل ہیں، جو حکومتی پالیسی کو تشکیل دینے کے لئے کاروباری بصیرت سے فائدہ اٹھانے پر جان بوجھ کر توجہ مرکوز کرنے کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کی تقرریوں نے اقتصادی اور ریگولیٹری فریم ورک پر ممکنہ اثرات کے بارے میں توقعات اور بحث دونوں کو جنم دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق صدر جو بائیڈن کی سبکدوش ہونے والی کابینہ کی مجموعی مالیت تقریباً 100 ملین ڈالر ہے۔ اس کے برعکس ٹرمپ کی آنے والی کابینہ کے اثاثوں کا تخمینہ 500 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔
ٹرمپ دوم کی توجہ چار اہم اقتصادی ستونوں پر مرکوز ہے: ٹیکس کٹوتی، ڈی ریگولیشن، کم شرح سود اور حکومت کے حقوق۔ ان ستونوں کا مقصد ٹیکس کے بوجھ کو کم کرنا، قواعد و ضوابط کو ہموار کرنا، قرض لینے کی کم لاگت کو برقرار رکھنا اور حکومت کو زیادہ مو¿ثر بنانا ہے۔ یہ نقطہ نظر دھماکہ خیز اقتصادی ترقی کو تحریک دینے کا پابند ہے، جس میں کرپٹو کرنسیوں جیسی غیر مرکزی ٹیکنالوجیوں کے انضمام سے اضافہ ہوا ہے۔امریکہ میں طویل عرصے سے ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ حد سے زیادہ ضابطے امریکہ کی کاروباری ترقی کو روکتے ہیں۔ اب‘ جبکہ امریکہ کے سرمائے نے ریگولیٹری فریم ورک پر قبضہ کر لیا ہے، سرمایہ کاروں، کاروباری افراد اور صارفین میں امید اور اعتماد کا ایک نیا احساس پیدا ہوا ہے۔ یہ تبدیلی کاروباری جدت اُور معاشی ترقی کے لئے ایک ممکنہ سنہری دور کی نشاندہی کرتی ہے‘ جو بلاک چین پر مبنی نظاموں اور ڈیجیٹل اثاثوں کی تخریبی صلاحیت کی وجہ سے ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کاروباری احیا کے لئے تیار ہے، جس سے امریکی معیشت میں خوشحالی کو فروغ ملے گا۔ یقینی طور پر، سرمائے اور ضابطے کی یہ شادی تجربہ ہوگی، جو بٹ کوائن اور کرپٹو کرنسیوں کے دور میں ہو رہی ہے۔ بنیادی طور پر، یہ نقطہ نظر روایتی سرکاری بیوروکریسی میں موجود نااہلیوں کو دور کرنے کے لئے نجی شعبے کی تیز رفتار ترقی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس تجربے کا مقصد معیشت کے تین بنیادی پہلو¶ں کی از سر نو وضاحت کرنا ہے: قدر کیسے پیدا کی جاتی ہے، ذخیرہ کیسے بڑھایا جائے اور کاروباری تبادلہ کیسے کیا جائے۔ کرپٹو کرنسیوں اور بلاک چین ٹیکنالوجی سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ مختلف شعبوں میں جدت کو آگے بڑھائیں گے، جس سے امریکی معیشت ڈیجیٹل انقلاب میں عالمی رہنما بن جائے گی۔ یہ واضح ہے کہ امریکیوں نے ایک قوم پرست حکومت کو ووٹ دیا ہے اور ٹرمپ اسی وژن کے مظہر ہیں۔ ٹرمپ دوم کی پالیسیاں امریکی مفادات کو ترجیح دیں گی اور امریکی معیشت کو دوبارہ زندہ کریں گی۔ جی ہاں، یہ امریکہ کی داخلی خوشحالی کے لئے اچھا اشارہ ہے تاہم، امریکہ کی سرحدوں سے باہر، ٹرمپ کا نقطہ نظر عالمی تجارت کے بارے میں سخت گیر ہے، جس میں اعلیٰ محصولات اور تجارتی جنگیں شامل ہیں۔ اگرچہ یہ حکمت عملی مختصر مدت میں امریکی صنعتوں کو تحفظ فراہم کرسکتی ہے لیکن بین الاقوامی تعلقات اور عالمی منڈیوں پر اس کے منفی اثرات ٹرمپ کی صدارت کا متنازعہ پہلو رہیں گے۔
(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)