انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر اِس جانب متوجہ کرنا ضروری ہے کہ خواتین کے حقوق کی ادائیگی اور اُن کا تحفظ کئے بغیر انسانی حقوق کے تحفظ کا تصور اور عمل جامع نہیں ہو سکتا اگرچہ انسانی حقوق کا دن تمام افراد کے وقار اور حقوق کو برقرار رکھنے کے لئے ہماری اجتماعی ذمہ داری کی یاد دہانی ہے لیکن یہ پاکستان میں خواتین اور لڑکیوں کو درپیش تلخ حقیقت کو آشکارا بھی کر رہا ہے۔پاکستان میں صنفی بنیاد پر تشدد نہ صرف افسوسناک حقیقت ہے بلکہ ایک وسیع مسئلہ بھی ہے جو ملک بھر میں لاکھوں خواتین کو متاثر کئے ہوئے ہے۔ چاہے گھریلو تشددہو یا تیزاب کے حملے، جنسی حملے اور ٹیکنالوجی کی مدد سے تشدد، خواتین کی زندگیاں متاثر دکھائی دیتی ہیں اور شہروں کی نسبت دیہی علاقوں میں یہ صورتحال مزید خراب ہے۔ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کو موصول ہونے والی ہراسانی کی تقریباً 90فیصد شکایات خواتین کی جانب سے دائر کی جاتی ہیں۔ تقریباً 70 فیصد طالبات کو آن لائن ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ 20 فیصد طالبات خوف اور اضطراب کی وجہ سے اسکولنگ چھوڑنے پر غور کرتی ہیں۔ کام کرنے والی خواتین کی حالت یکساں سنگین ہے، پینتالیس فیصد نے ’ایف آئی اے‘ کو آن لائن بدسلوکیوں کی اطلاع دی، اور پندرہ فیصد نے اس کی وجہ سے اپنی نوکریاں چھوڑ دیں جیسا کہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے، خواتین کو جس ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ صرف جسمانی نہیں ہے۔ یہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز تک بھی پھیلا ہوا ہے، جو کبھی بااختیار بنانے اور ترقی کے لئے پناہ گاہ کے طور پر دیکھا جاتا تھا لیکن ٹیکنالوجی کی مدد سے صنفی بنیاد پر تشدد (ٹی ایف جی بی وی) کے عروج کے ساتھ، مساوات اور مواقع کو فروغ دینے کے لئے وہی جگہیں خواتین سے نفرت اور خواتین کو کنٹرول کرنے کا ذریعہ بن گئی ہیں۔ سائبر سٹکنگ اور ہراسانی سے لے کر ڈیپ فیک پورنوگرافی تک، آن لائن دنیا خواتین کے حقوق کی جنگ میں ایک نیا محاذ بن چکی ہے۔ کورونا وبا نے اس مسئلے کو مزید بڑھا دیا کیونکہ زیادہ سے زیادہ خواتین کام، تعلیم اور سماجی میل جول کے لئے آن لائن وسائل کا انتخاب کرنے لگیں جس سے انہیں استحصال اور بدسلوکی کی نئی لہر کا سامنا کرنا پڑا۔پاکستان کا قانونی فریم ورک ترقی کرتے ہوئے بھی اس مسئلے کے پیمانے کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ سائبر کرائمز سے نمٹنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پی ای سی اے) 2016ء میں ٹی ایف جی بی وی سے نمٹنے کے لئے دفعات کا فقدان ہے اگرچہ اس میں ذاتی وقار اور رازداری کے تحفظ کے لئے شقیں شامل ہیں لیکن ان قوانین پر عمل درآمد کمزور ہے، محدود نفاذ کی صلاحیت اور ابھرتے ہوئے ڈیجیٹل خطرات سے نمٹنے کے لئے ایک فرسودہ نکتہئ نظر ہے۔ ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ، جسے قانون کے نفاذ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، چوبیس کروڑ سے زائد آبادی والے ملک میں صرف 144 افسران کے ساتھ کام کرتا ہے۔ اس طرح کے ناکافی نظام کے ساتھ، یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ڈیجیٹل تشدد کے بہت سے متاثرین خود کو بے اختیار محسوس کرتے ہیں اور اکثر اپنے خلاف ہونے والے واقعات یا جرائم کی اطلاع دینے سے باز رہتی ہیں۔پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد کے ارد گرد بدنامی جڑی ہوئی ہے جس کی وجہ سے اِس مسئلے نے درپیش چیلنجوں کو مزید بڑھا دیا ہے۔ گھریلو تشدد کو اکثر ایک خاندانی معاملے کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جسے کمرہئ عدالت کے بجائے بند دروازوں کے پیچھے حل کیا جانا چاہئے۔ تشدد کے اس رواج کو معمول (اعتدال) پر لانے میں خواتین مخالف روئیوں کی وجہ سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اُور اب بھی معاشرے میں ایسے افراد اُور سوچ کا غلبہ ہے جو خواتین کو اُن کے ساتھ ہونے والی بدسلوکیوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ یہ رویے نہ صرف زندہ بچ جانے والوں کے لئے آگے آنا مشکل بنا رہے ہیں بلکہ متعلقہ قوانین کے نفاذ میں بھی رکاوٹ ہیں جو خواتین کے تحفظ کے لئے بنائے گئے ہیں۔خواتین کے خلاف تشدد کا خاتمہ معاشرتی شرکت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ جس کے لئے معاشرے کو بااختیار بنا کر ایسا ماحول پیدا کیا جا سکتا ہے جہاں خواتین محفوظ، قابل قدر اور پھلنے پھولنے کے قابل ہوں۔ اِن باہم مربوط کوششوں کے ذریعے ہی ایک زیادہ منصفانہ معاشرے کی تشکیل اُور خواتین کے محفوظ مستقبل کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر سولہا ناصر۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
ہتھیار برائے امن
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
پاک بھارت تعلقات: نازک صورتحال
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شعبہ ئ تعلیم: اصلاحات و تصورات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
بٹ کوائن
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
امریکی سیاست اور دفاعی اخراجات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
فضائی آلودگی اور ہمارے شہر
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
پاک امریکہ تعلقات: ترقیاتی امکانات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام