عالمی جنوبی ممالک : اشتراک عمل

چین کے صدر شی جن پنگ نے چوبیس اکتوبر دوہزارچوبیس کے روز روس میں منعقدہ برکس پلس رہنما¶ں کے اجلاس سے خطاب کیا اور عالمی جنوب کے ممالک پر زور دیا کہ وہ جدیدیت کی راہ اختیار کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کریں۔ اِس موقع پر عالمی اشتراک عمل کو فروغ دینے کے لئے گلوبل سا¶تھ تھنک ٹینک الائنس کے قیام کا اعلان بھی کیا گیا۔ ترقی پذیر ممالک کے سیاست دانوں اور پالیسی سازوں نے ایک ایسے ملک کے رہنما کی کال پر فوری توجہ دی ہے جو 1980ءکے بعد سے غربت میں کمی کا عالمی ریکارڈ قائم کر چکا ہے اور اُس نے عالمی غربت کا تقریباً تین چوتھائی حصہ کم کیا ہے۔ چین کے صوبہ جیانگسو کے شہر نانجنگ میں ایک سو سے زائد ممالک کے سیاسی رہنما¶ں اور تھنک ٹینکس کے نمائندوں کے تاریخی اجلاس کے دوران گلوبل سا¶تھ تھنک ٹینکس الائنس کا باضابطہ آغاز چودہ نومبر دوہزارچوبیس کے روز کیا گیا۔ چین اور دیگر ترقی پذیر ممالک کی 200 سے زائد یونیورسٹیوں اور اداروں کے وسائل کو ایک جگہ جمع کیا جائے گا اور اِس حوالے سے تحقیق بھی کی جائے گی کہ کس طرح ہر ترقی پذیر ملک اپنا منفرد راستہ اپنا کر ترقی یافتہ بنایا جا سکتا ہے۔پہلی جنگ عظیم کے بعد، بریٹن ووڈز کے اداروں اور اقوام متحدہ کے نظام کے قیام نے پہلی بار عالمی سلامتی اور معاشی نظم و نسق کی جانب توجہ مبذول کی تاہم روس کے نظریاتی حریف کے طور پر ابھرنے نے امریکہ کو بلا مقابلہ بالادستی اختیار کی۔ یہ سب اس وقت بدل گیا جب دسمبر 1991ءمیں سوویت یونین کا سقوط ہوا۔ جس کے بعد تمام بین الاقوامی ادارے امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کے سیاسی اور نظریاتی زیر اثر بن گئے۔ اگلی چوتھائی صدی کے لئے مغرب نے اپنی اقدار، سیاسی اداروں، معاشی نمونوں، سکیورٹی تنظیموں اور ثقافتی اقدار کو پوری انسانیت کے لئے مقدر قرار دیا اور اب صورتحال یہ ہے کہ لبرل ڈیموکریسی، مارکیٹ اکانومی اور انسانی حقوق کی آزادی کے مغربی تصورات کے فریم ورک کے بغیر کوئی بھی معاشرہ استحکام حاصل نہیں کر سکتا اور معاشی طور پر ترقی نہیں کر سکتا یا سماجی ترقی نہیں کر سکتا۔ روس، سابق سوویت یونین کی دیگر جمہوریہ اور مشرقی یورپ کی اقوام نے سب سے پہلے نئے عالمی نظام کے بعد اپنے معاشروں میں آنے والی تبدیلیوں کو دیکھا۔ ان ممالک کو واشنگٹن نے تخفیف اسلحہ، جوہری اسلحے کے خاتمے، جمہوریت سازی، نجکاری اور ہول سیل ڈی ریگولیشن اور لبرلائزیشن قبول کرنے پر مجبور کیا۔ سوویت یونین کے سقوط کے بعد روس بنا جو اب ختم ہونے والے وارسا معاہدے کے ممالک کا سب سے بڑا رکن ملک ہے، اور اسے عظیم کساد کے دوران امریکہ کو درپیش معاشی مشکلات سے بھی بدتر معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ روس نے ایک دہائی تک سیاسی افراتفری، افراط زر، بے روزگاری، داخلی سلامتی کی خرابی اور معاشرے کے اخلاقی تانے بانے ٹوٹتے ہوئے دیکھے اور روس کی آبادی میں بھی کمی آئی۔ افریقہ، لاطینی امریکہ اور ایشیا کے ممالک کو نرم اور سخت ہتھکنڈوں کے ذریعے ایک ہی پالیسی پر عمل کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اسی عرصے کے دوران، دنیا کی غریب آبادی میں افریقہ کا حصہ 56 فیصد سے بڑھ کر 67 فیصد سے زیادہ ہو گیا حالانکہ کچھ اندازوں کے مطابق ترقیاتی امداد کی مد میں دو کھربڈالر سے زیادہ کی رقم دی گئی۔چین کی معاشی کامیابی نے مغربی نظریاتی بالادستی کے جادو کو توڑ دیا اور ترقی پذیر ممالک کے لئے اپنی سماجی، سیاسی اور تاریخی حقیقتوں کے مطابق پالیسیوں پر عمل کرنے کے نئے امکانات کھول دیئے ہیں۔ سال 2012ءمیں 18ویں نیشنل کانگریس کے ذریعہ شی جن پنگ کے کمیونسٹ پارٹی آف چائنا (سی پی سی) کے جنرل سیکرٹری کے عہدے پر منتخب ہونے کے بعد سے چین کی مسلسل جدیدکاری کی مہم نے مغربی نظریات کو مسترد کردیا ہے اور مغربی پیش گوئیوں کو غلط ثابت کیا ہے کہ معاشی ترقی یا تو چین کو مغربی معاشرے کی آئینہ دار تصویر میں تبدیل کردے گی یا ملک کو معاشرتی بدامنی کا سامنا کرنا پڑے گا اور معاشی طور پر کمزور ہوجائے گا۔ مغرب کی یہ دلیل کہ کثیر الجماعتی فرنچائز ڈیموکریسی اور غیر منصفانہ معاشی پالیسیاں خوشحالی کا واحد راستہ ہیں، اب حوصلہ افزا نظر نہیں آ رہیں۔ چین کا عروج نہ صرف خودمختاری بلکہ عاجزی، عدم مداخلت کے اصول اور تحمل کی علامت بھی ہے اگرچہ چین نے گلوبل سا¶تھ تھنک ٹینک ڈائیلاگ کا آغاز کرکے اور سو سے زائد ممالک کے تحقیقی اداروں کا اتحاد تشکیل دے کر قیادت کا مظاہرہ کیا ہے لیکن اسے اپنے سیاسی اداروں اور معاشی ماڈل کو برآمد کرنے کی کوئی خواہش نہیں ہے۔ چین صرف آئینے کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ گلوبل سا¶تھ کے عوامی دانشوروں پر منحصر ہے کہ وہ اس بات پر غور کریں کہ مغربی گلوبلائزیشن کو اپنانے والے معاشرے ترقی کی دوڑ میں کیوں پیچھے رہ رہے ہیں جبکہ چین کی قیادت عوام اور ملک کو آگے بڑھانے میں کامیاب رہے ہیں۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر سید سردار علی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)

 بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اگر چین ترقی کر سکتا ہے تو دیگر ترقی پذیر ممالک بھی چین کے نقش قدم پر چل کر ترقی کر سکتے ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر سید سردار علی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام۔۔۔۔۔۔۔۔