شام کی آزادی؟

شام پر علوی دور حکومت کی 53 سال کے اقتدار کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ اب یہ لوگوں کے نظریے پر منحصر ہے کہ آیا دمشق زوال پذیر ہوا ہے یا پھر یہ آزاد ہوگیا ہے۔ درحقیقت یہ دونوں باتیں ہی اپنی جگہ کسی حد تک درست ہیں۔ دمشق جو عرب میں امریکہ اور اسرائیل کے تسلط کے خلاف وقار اور مزاحمت کی علامت سمجھا جاتا رہا بلاشبہ حالیہ پیش رفت اس کے زوال کے مترادف ہے۔ والد اور بیٹے کی علوی حکومت کہ جس میں وحشیانہ جبر دیکھا گیا، اختتام پذیر ہونے کے تناظر میں دمشق واقعی آزاد ہوا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ شام میں باغیوں کی فتح سے امریکہ‘ اسرائیل‘ ترکیہ اور سعودی عرب کی بڑی کامیابی ہے جبکہ یہ روس، ایران اور فلسطین کیلئے دھچکا ہے۔ اس پیش رفت کے مشرقِ وسطیٰ پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ شام میں باغیوں کی جیت کو ترکیہ اور اس کے صدر رجب طیب اردوان کی کامیابی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ترکیہ کا شام کے شمال مشرق کے کرد علاقے پر کافی اثر و رسوخ ہے اور ممکنہ طور پر حیات التحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کے ساتھ بھی اس کے روابط ہیں جو القاعدہ کے ساتھ اپنے تعلقات ختم کرنے کے بعد اسلامی قوم پرست تنظیم کے طور پر سامنے آئی ہے۔ رجب طیب اردوان اب شامی پناہ گزینوں کو واپس اپنے ملک بھیجیں گے اور ایک جمہوری ملک کے طور پر ترکیہ کوشش کرے گا کہ حیات التحریر الشام آمرانہ طرزِ حکرانی سے گریز کرے۔ اس اثنا میں ترکیہ کو شاید سعودی عرب کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ شام کی صورت حال کے ایران اور حزب اللہ پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ شام پر ایران کا اثر و رسوخ اور حزب اللہ کے ذریعے شام کا لبنان پر اثر و رسوخ، وہ محرکات تھے جو خطے میں بالادستی قائم کرنے میں امریکہ کی راہ میں رکاوٹ تھے جبکہ یہ اسرائیل کیساتھ عسکری مزاحمت کرتے تھے۔ فلسطینیوں پر اس کے بدترین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ وہ کافی حد تک ایسے فریقین کی مدد پر انحصار کررہے ہیں جنہیں حالیہ پیش رفت میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن اس پورے منظرنامے میں ڈونلڈ ٹرمپ ایک غیر متوقع حالات پیدا کرسکتے ہیں۔ اس پیش رفت سے متعلق ان کا پہلا ردعمل یہی تھا کہ امریکہ کو شام کے معاملے میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔ یہ بیان شاید انہوں نے ولادیمیر پیوٹن کے احترام میں دیا ہو یا اس کے پیچھے یہ بھی وجہ ہوسکتی ہے کہ خطے میں حماس تنہا ہوچکا ہے کیونکہ وہ عناصر کمزور پڑ چکے ہیں جن کے سہارے وہ مزاحمت کو برقرار رکھ سکے، ایسے میں ٹرمپ شاید اسرائیل کو غزہ میں جنگ بندی کیلئے آمادہ کرسکتے ہیں۔ اسرائیل اس وقت مضبوط ترین پوزیشن میں ہے اور وہ نہ ختم ہونے والی عسکری جارحیت پر امن کو ترجیح دے سکتا ہے۔ اگر اسرائیل امن کی راہ چنتا ہے تو اس سے ابراہم معاہدے کی بحالی ہوگی جس کے ذریعے عرب ممالک اپنے عوام کو فلسطین کے معاملے پر کسی بھی اقدام سے روک سکتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں امریکہ کی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ اپنے حریف ممالک جیسے ماسکو، تہران اور دمشق میں حکومتیں تبدیل کرے‘ اب وہ شام میں حکومت کا تخت الٹنے میں کامیاب ہوچکا ہے۔ اب امریکہ اپنی حالیہ کامیابی کے بعد ان تمام ممکنہ محرکات کا جائزہ لے گا جن کو بروئے کار لا کر وہ روس میں حکومت کو تبدیل کرسکے۔ الاسد خاندان کی حکمرانی کے خاتمے کے ساتھ شام میں روس کے فوجی اڈے ممکنہ طور پر ختم ہوجائینگے جبکہ ٹرمپ کی شام کے معاملے میں مداخلت نہ کرنے کی پالیسی کی وجہ سے روس شام سے اپنی فورسز کے انخلا پر مجبور ہو جائے گا۔ یوں وہ یوکرین پر زیادہ توجہ دے پائے گا جس سے یوکرین میں اس کی پوزیشن مضبوط ہوگی۔ مسلم دنیا میں پاکستان سب سے بڑا ملک ہے لیکن ملک کو درپیش واضح مسائل کی وجہ سے اس کا اثرورسوخ سب سے کم ہے تاہم شام میں علوی آمرانہ حکومت کے اختتام سے ظاہر ہوا ہے کہ جب حکومتیں عوام کی حمایت کھو دیتی ہیں تو اسی طرح اچانک زوال پذیر ہوجاتی ہیں۔ (مضمون نگار سابق سفارتکار ہیں۔ بشکریہ ڈان۔ تحریر اشرف جہانگیر قاضی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)