موسمیاتی تبدیلی: راہئ نجات

”سی او پی 29“ سے کلائمیٹ فنانس ایکشن فنڈ کا آغاز ہوا جو اچھا اقدام ہے لیکن ہمیں صرف خالی وعدوں کی نہیں بلکہ عملی کاروائی کی ضرورت ہے۔ عالمی برادری کو بھی اپنے وعدے پورے کرنے کے لئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ امیر ممالک، جو سب سے زیادہ آلودگی پھیلاتے ہیں، انہیں چاہئے کہ وہ اپنے ذمے واجب الادأ آب و ہوا کا قرض ادا کریں۔
پاکستان آب و ہوا کی تبدیلی کو نہ صرف دیکھ رہا ہے بلکہ اس کے منفی اثرات سے گزر بھی رہا ہے۔ سیلاب سے لے کر خشک سالی تک، آب و ہوا کسی ڈراؤنے خواب جیسا ہے جس کی وجہ سے ہمیں بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ صرف سال دوہزاربائیس کے سیلاب نے ملک کے ایک تہائی حصے کو زیرآب کر دیا تھا جس سے لاکھوں افراد بے گھر ہوئے اور مجموعی طور پر تیس ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اس کے باوجود پاکستان کاربن کے عالمی اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ رکھتا ہے اُور یہی وجہ ہے کہ پاکستان زیادہ کاربن خارج کرنے والے ممالک سے منصفانہ معاہدہ چاہتا ہے۔ ہمیں جس چیز کی اشد ضرورت ہے وہ آب و ہوا کی فنانسنگ ہے۔ یہ کہنے کا ایک اچھا طریقہ یہ ہے کہ ”آئیے اس ماحولیاتی تبدیلی کو مزید خراب ہونے سے پہلے ٹھیک کرنے میں سرمایہ کاری کریں۔“ یہ درخواست صرف آفات کے بعد چیزوں کو ٹھیک کرنے کے بارے میں نہیں بلکہ ایک ایسے مستقبل کی تعمیر کے بارے میں جہاں ہم بہتر طور پر تیار ہوں۔
آب و ہوا کی بہتری کے لئے مالی اعانت کو مستقل بنانا چاہئے۔ یہ فنڈنگ پاکستان جیسے ممالک کو آب و ہوا کی تبدیلی کے مطابق ڈھالنے اور اس سے پیدا ہونے والے خطرات کم کرنے میں مدد کرنے کے لئے ہونی چاہئے۔ قابل تجدید توانائی کے منصوبوں سے لے کر سمارٹ فارمنگ تکنیک، ماحول کے موافق رہن سہن اور بہتر ڈیزاسٹر مینجمنٹ جیسے موضوعات پر سیر حاصل غور ہونا چاہئے۔پاکستان کے لئے ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنا آسان اور اختیاری نہیں ہے۔ یہ ایک لائف لائن ہے۔ آب و ہوا کی آفات سے پہلے ہی ہمیں سالانہ 3.8 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے اور یہ نقصان وقت کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ آب و ہوا کی بہتری میں سرمایہ کاری طویل المدت نقصانات سے  بچا سکتی ہے۔ پاکستان کے پاس نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی تو ہے لیکن اِس اور اِس جیسی دیگر پالیسیاں پر عمل درآمد کے لئے مالی وسائل حسب ضرورت دستیاب نہیں ہیں۔ پاکستان میں جب بدترین سیلاب آیا تو اُس کے بعد ہوئی جنیوا کانفرنس میں پاکستان کو دس ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا گیا لیکن یہ پیسے نہیں ملے۔ موسمیاتی فنانسنگ کے حوالے سے پاکستان کا نقطہ نظر بہت واضح ہے لیکن دنیا اِسے خاطرخواہ توجہ نہیں دے رہی۔ مثال کے طور پر زراعت کے شعبے ہی کو لے لیجئے۔ یہ ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور ہماری چالیس فیصد سے زیادہ افرادی قوت کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ اس کے باوجود، بے ترتیب موسم اور پانی کی کمی فصلوں کو تباہ کر رہی ہے۔ خشک سالی کے خلاف مزاحمت کرنے والے بیج یا ڈرپ آبپاشی جیسے سمارٹ فارمنگ کے طریقوں میں سرمایہ کاری حیرت انگیز نتائج دے سکتی ہے لیکن ان منصوبوں پر شاذ و نادر عمل درآمد ہوتا نظر آتا ہے۔
پاکستان کو قابل تجدید توانائی کی ضرورت ہے۔ شمسی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے امکانات موجود ہیں لیکن اِس میں خاطرخواہ سرمایہ کاری نہیں کی جا رہی۔ دوسری طرف پاکستان کو عالمی امداد نہ ملنے کی بڑی وجہ ملک میں کرپشن اور بیوروکریسی کے طور طریقے ہیں جو کسی آسان کام کو بھی مشکل بنا دیتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہر کام حکومت نہیں کر سکتی۔ ماحولیاتی تبدیلی میں نجی شعبے کو شریک سفر کرنا گیم چینجر ثابت ہوسکتا ہے۔ اِسی طرح پڑوسی ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنا اور وسائل کو اکٹھا استعمال کرنا سے تحفظ ماحول کی کوششوں میں بہتری آ سکتی ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی ایک حقیقت ہے جس کے لئے مالی اعانت بطور خیرات نہیں بلکہ انسانی بقا میں سرمایہ کاری سمجھ کر کرنی چاہئے۔ پاکستان کے لئے یہ معاملہ صرف آفات کا مقابلہ کرنا یا اِن سے نکلنا نہیں بلکہ ایک ایسے مستقبل کی تعمیر ہے جہاں ہم مشکلات کے باوجود ترقی کر سکیں۔ پاکستان کے دماغ اُور افرادی وسائل موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم میں موسمیاتی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی ہمت رکھتے ہیں؟ کیونکہ ایک بات یقینی ہے کہ کچھ نہ کرنے کی قیمت بھی ہوتی ہے جسے پاکستان ادا کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتا۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر ایم ذیشان۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)