کوئی سوچ سکتا ہے کہ پاکستان جیسا ملک، جو پہلے ہی معاشی بحران کے دہانے پر کھڑا ہے اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے انتہائی غیر محفوظ ہو چکا ہے اُور اِس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے ایسی پالیسیوں کو ترجیح دی جا رہی ہے جو تحفظ ماحول کے نقطہئ نظر سے نہ صرف غیرمنصفانہ ہیں بلکہ اِن کے اثرات بھی غیرپائیدار ہیں۔ یقینی طور پر ترقیاتی بجٹ میں اضافے اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے محصولات کی وصولی میں کمی کی وجہ سے، جو حال ہی میں اپنے ہدف سے 350 ارب روپے سے زیادہ کم رہ گیا ہے، ہم اخراجات کے حوالے سے زیادہ محتاط حکومتی نقطہ نظر دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان کی شہری منصوبہ بندی عارضی منصوبوں، فلائی اوورز، انڈر پاسز اور ہائی ویز پر مرکوز ہے، جو تقریباً دس فیصد سے بھی کم پاکستانیوں کی ضروریات پوری کرتے ہیں اُور ان سے نجی گاڑیوں کے مالکان کو فائدہ ہوتا ہے۔ ہر سال اربوں روپے ان غیر پائیدار منصوبوں کی نذر ہو جاتے ہیں، یہاں تک کہ ملک کے باقی حصوں کو تباہ حال پبلک ٹرانسپورٹ، بلند افراط زر اور بگڑتی ہوئی فضائی آلودگی کا سامنا ہے جسے نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ سوال صرف یہ نہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ ایسا کیسے کیا جا رہا ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ مالی رکاوٹوں اور ناقص کارکردگی والی معیشت کے باوجود ہم ملک کی اکثریت کی ضروریات کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسے منصوبوں کو ترجیح دے رہے ہیں جو پہلے سے مراعات یافتہ افراد کے لئے وضع کئے گئے ہیں۔ پاکستان کی شہری منصوبہ بندی غلط ترجیحات، پسماندہ سوچ پر مبنی ترقی کی عمدہ مثال (کیس سٹڈی) ہے۔ یہ صرف قومی قیادت کی جانب سے ’میگا پراجیکٹس‘ کا جنون نہیں جنہیں منصوبوں کے افتتاح کا شوق ہے بلکہ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے بڑے دانشوروں کی قیادت میں بیوروکریسی غیر مستحکم شہروں کی تعمیر میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ قومی قیادت اُور افسرشاہی نے مل کر شہری ترقی کو عوامی ضروریات سے الگ کر دیا ہے اُور ایسے شہر ڈیزائن ہو رہے ہیں‘ جو صرف سرمایہ داروں کے لئے مفید ہیں۔ ہر ہفتے کوئی نئی شہ سرخی پڑھنے کو ملتی ہے کہ ایک نئے میگا پراجیکٹ‘ کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے جس کا مقصد بھیڑ کو کم کرنا بتایا جاتا ہے۔ سڑکوں کو چوڑا کرنے اور مزید فلائی اوورز کی تعمیر پر اربوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں لیکن اِس سے عام پاکستانی کا فائدہ نہیں جو پبلک ٹرانسپورٹ کی افراتفری سے نمٹ رہا ہے۔ مزید سڑکوں کی تعمیر کے بارے میں ایک حقیقت یہ ہے کہ اِن سے ٹریفک کا ہجوم کم نہیں ہوتا اُور نہ ہی یہ ٹریفک کے مسئلے کا حل ہے بلکہ درحقیقت، یہ ٹریفک کے مسئلے کو بدتر بنائے ہوئے ہے۔ اِس قسم کی ترقی ”محرک طلب“ کہلاتی ہے۔ جتنی زیادہ سڑکیں بنائی جائیں گی اُتنی ہی زیادہ گاڑیاں آئیں گی اُور پھر مزید سڑکوں یا توسیع کی ضرورت ہوگی۔ پاکستان کو ماس ٹرانزٹ کی ضرورت ہے جو ایک اجنبی تصور ہے۔ ہمارے پہلے درجے کے شہر اس بات کی جھلک پیش کرتے ہیں کہ کیا ممکن ہے۔ لاہور میٹروبس، اورنج لائن اور فیڈر روٹس کے بڑھتے ہوئے نیٹ ورک موجود ہیں۔ اسلام آباد اور راولپنڈی نے اپنے میٹروبس سسٹم اور نئی فیڈر روٹ بسوں کے ساتھ ترقی کی ہے۔ پشاور کے بی آر ٹی نے وعدہ کیا ہے لیکن یہ تمام کوششیں ناکافی ہیں کیونکہ انہیں حسب وعدہ اُور اعلانات توسیع نہیں دی جا رہی۔ کراچی ملک کا معاشی دل ہے جہاں 2 کروڑ سے زیادہ لوگ رہتے ہیں لیکن اِس شہر میں فعال ماس ٹرانزٹ سسٹم کا فقدان ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق کراچی کو عوام کی ٹرانسپورٹ طلب کو پورا کرنے کیلئے کم سے کم 10 ہزار سے زائد بسوں کی ضرورت ہے لیکن آج ایک ہزار سے بھی کم بسیں چل رہی ہیں۔ اسی طرح لاہور کو 10 ہزار سے زائد بسوں کی ضرورت ہے جبکہ اسلام آباد راولپنڈی کو ایک ہزار سے زائد اضافی بسوں کی ضرورت ہے۔ یہ ہمارے پہلے درجے کے شہروں کی حقیقت ہے۔ دوسرے درجے کے شہروں میں صورتحال اس سے بھی بدتر ہے۔ کوئی ماس ٹرانزٹ نہیں ہے‘ کوئی شہری منصوبہ بندی نہیں اور لاکھوں لوگوں کی نقل و حرکت کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوئی خاص جلدی بھی دکھائی نہیں دیتی۔ اس خرابی کی جڑ گورننس (طرز حکمرانی) میں ہے۔ مقامی حکومتیں، جنہیں شہری منصوبہ بندی کرنی چاہئے وہ یا تو موجود نہیں یا معنی خیز اختیارات سے محروم ہیں۔ مقامی حکومتوں کی عدم موجودگی میں غیر منتخب بیوروکریٹس ناقص پالیسیوں کو وضع کر رہے ہیں اُور غیر پائیدار اور بڑے میگا پروجیکٹس کی منظوری دیتے ہیں۔ غلط ترقیاتی ترجیحات سے درست نتائج برآمد ہونے کی اُمید نہیں رکھنی چاہئے۔ عارضی مقاصد و اہداف کیلئے ترقیاتی منصوبوں کی بجائے طویل مدتی ترقی ترجیح وقت کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات اُور تحفظ ماحول کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی سوچ کو ہر سطح پر تبدیل کئے بغیر کامیابی حاصل نہیں ہو گی۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر مصطفی طارق وائیں۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
بٹ کوائن
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سماجی ارتقائ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شام کی آزادی؟
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: راہئ نجات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سال 2024ء کی یادیں
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جنوبی ایشیا بنا بھارت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: مخفی پہلو
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سال 2025: غیرمستحکم دنیا
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
ٹیکنالوجی پر مبنی پاکستان
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شام کی نئی حکومت اور ٹرمپ کارڈ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام