’ماسکو کی بڑی شکست‘، یوکرین کے ذریعے روسی گیس کی یورپ کو فراہمی ختم

یوکرین سے گزرنے والی سوویت دور کی پائپ لائنوں کے ذریعے روسی گیس کی فراہمی سال نو کے پہلے روز روک دی گئی، جس سے یورپ کی توانائی کی منڈیوں پر ماسکو کا کئی دہائیوں کا غلبہ ختم ہو گیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق تقریباً تین سال کی جنگ کے باوجود گیس اس پائپ لائن کے ذریعے جا رہی تھی، لیکن روس کی گیس کمپنی ’گیزپروم‘ نے کہا کہ یوکرین کی جانب سے ٹرانزٹ معاہدے میں توسیع انکار کے بعد اسے بند کر دیا گیا ہے۔

وسیع پیمانے پر گیس کی فراہمی رکنے سے یورپی یونین میں صارفین کے لیے قیمتوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، یہ صورتحال 2022 کے برعکس ہوگی، جب روس سے گرتی سپلائی کے سبب قیمتیں ریکارڈ اونچائی پر چلی گئی تھیں، جس کے نتیجے میں زندگی گزارنے کی لاگت کو بحران پیدا ہوا اور بلاک کی مسابقت کو نقصان پہنچا تھا۔

یوکرین کے راستے روسی گیس حاصل کرنے والے آخری یورپی یونین کے خریداروں سلوواکیہ اور آسٹریا نے متبادل سپلائی کا بندوبست کر لیا، جبکہ ہنگری بحیرہ اسود کے نیچے ترک اسٹریم پائپ لائن کے ذریعے روسی گیس حاصل کرتا رہے گا۔

لیکن یوکرین کے ہمسایہ ملک مالڈووا کا روس نواز خطہ ٹرانسڈنیسٹریا بھی اسی ذریعے سے گیس حاصل کرتا ہے، گیس منقطع ہونے سے وہاں پر گھرانوں کو ہیٹنگ اور گرم پانی کی فراہمی معطل ہو گئی۔

مقامی توانائی کمپنی نے شہروں پر زور دیا کہ وہ گرم کپڑے پہنیں اور کھڑکیوں پر موٹے پردے ڈالیں اور الیکٹرک ہیٹرز کا استعمال کریں۔

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ٹیلی گرام میسجنگ ایپ پر کہا کہ ان کے ملک سے یورپ تک گیس کی ترسیل کا خاتمہ ’ماسکو کی بڑی شکستوں میں سے ایک ہے‘، اور امریکا پر زور دیا کہ یورپ کو مزید گیس فراہم کریں۔

انہوں نے لکھا کہ اب یورپ کا ’مشترکہ کام‘ سابق سوویت مالڈووا کو توانائی کی تبدیلی کے اس دور میں حمایت کرنا ہے۔

یورپی کمیشن کا کہنا تھا کہ یورپی یونین نے گیس منقطع ہونے کی تیاری کر رکھی ہے۔

ترجمان کمیشن نے کہا کہ یورپی گیس کا بنیادی ڈھانچہ غیر روسی گیس فراہم کرنے کے لیے کافی لچکدار ہے۔

روس اور سابق سوویت یونین نے نصف صدی تک یورپی گیس مارکیٹ کا ایک بڑا حصہ بنانے میں صرف کیا، جو اپنے عروج پر تقریباً 35 فیصد پر پہنچا لیکن یوکرین میں جنگ کے آغاز کے بعد سے یورپی یونین نے ناروے سے مزید پائپ گیس اور قطر اور امریکا سے ایل این جی خرید کر روسی توانائی پر اپنا انحصار کم کر دیا۔

یوکرین کو روس سے ٹرانزٹ فیس میں سالانہ ایک ارب ڈالر تک کا نقصان ہوگا، جس کے نتیجے میں ملک کی صنعت کو 3 کروڑ 82 لاکھ ڈالر کا اضافہ بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔

اسی طرح روسی کمپنی ’گیز پروم‘ کو گیس کی فروخت میں تقریباً 5 ارب ڈالر کا نقصان ہوگا۔