ناقابل فراموش کھلاڑی 

 پشاور کے نواحی علاقے نواں کلے میں 110سال  پہلے 1914 ء میں  پیدا ہونے والے ہاشم خان کا کس کو پتہ تھا کہ  وہ 7 مرتبہ برٹش اوپن سکواش چیمپئن بنے گا جو دنیائے سکواش کا سب سے بڑا ٹورنامنٹ شمار ہوتا ہے‘وہ پشاور کلب کے سکواش کورٹ میں بطور بال بوائے ball  boy بھرتی ہوا‘ فرنگیوں کا دور تھا  اس زمانے میں وہاں گورے کھیلنے آتے‘ایک مرتبہ اس کو ایک گورے کے ساتھ کھیلنا پڑا‘جسے اس نے مات دے دی‘اس نے اس کے اندر چھپے ہوئے سکواش کھلاڑی کے ٹیلنٹ کو بھانپ لیا اور اسے موقع فراہم کر دیا کہ وہ بمبئی میں ہونے والے ایک سکواش ٹورنامنٹ میں حصہ لے جو ہاشم خان نے جیت لیا اس کے بعد تو جیسے اس کی قسمت جاگ اٹھی‘قیام پاکستان کے بعد وہ پی اے ایف کے تحت ہونے والے سکواش ٹورنامنٹ کے میچوں میں حصہ لینے لگا اور انجام کار اسے حکومت نے برٹش اوپن سکواش چیمپئن شپ میں پاکستان کی نمائندگی کے لئے لندن بھجوایا‘اس نے سات مرتبہ اس چمپئین شپ کو  جیت کر ایک نیا عالمی  ریکارڈ قائم کیا جو آج تک قائم  ہے‘ہاشم خان کے دیکھا دیکھی اس کے بھائی اعظم خان اور روشن خان نے بھی دنیائے سکواش میں زبردست نام کمایا اور روشن خان کے بیٹے جہانگیر خان نے بھی اپنے آ باء  و اجداد کی طرح سکواش کی دنیا پر  ایک لمبے عرصے تک اپنی گرفت قائم رکھی‘ ان ہی کے گاؤں سے تعلق رکھنے والے کئی اور کھلاڑی بھی سکواش کی دنیا کے افق پر ایک لمبے عرصے تک چمکتے رہے‘ جن میں ہدایت جہاں‘ محب اللہ‘قمر زمان  اور جان شیر خان کے نام قابل ذکر ہیں‘ہاشم خان اپنی زندگی کے آ خری ایام میں امریکہ شفٹ ہو گئے تھے‘جہاں انہوں نے 2014 ء میں سو سال کی عمر میں وفات پائی وہ آخری دم تک روزانہ سکواش کورٹ میں داخل ہو کر کھیلتے رہے‘ سکواش ہی ان کا کھانا پینا‘ اوڑھنا بچھونا تھا‘ کسی بھی گیم میں اتنے لمبے عرصے تک کسی ایک خاندان کی اجارہ داری کی کوئی اور مثال نہیں ملتی‘کیا ہم نواں کلی کو ہاشم  خان کے نام سے منسوب نہیں کر سکتے؟کیا ہم پشاور کے کسی روڈ کو ہاشم خان روڈ کا نام نہیں دے سکتے؟ کیا ہم ہاشم خان کے آ بائی گھر کو نیشنل ہیریٹج ڈکلیئر کرکے اسے ایک میوزیم میں تبدیل نہیں کر سکتے؟ کیا ہمارا کوئی ٹیلی وژن چینل ان پر دستاویزی فلم بنا کر ہر سال ان کے یوم پیدائش پر اسے ٹیلی کاسٹ نہیں کرسکتا؟ہاشم خان جیسے کھلاڑی روز روز تھوڑی ہی پیداہوتے ہیں۔ 
ماضی قریب کے پشاور اور اس کی مٹی سے جنم لینے والوں کا ہلکا سا تذکرہ بھی بے جا نہ ہوگا کہ جو اپنے اپنے پیشے میں یکتا تھے‘ ایوان اقتدار اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے ان  افراد سے ہماری یاد اللہ تھی‘ افضل بنگش‘ارباب سکندر‘ اجمل خٹک‘میاں  ضیا ء الدین  فضل محمود‘ سیف الرحمن کیانی‘ خان مکرم خان‘ اشرف خان پروفیسر امداد حسین‘فارغ بخاری‘  پیر بخش خان‘ غلام احمد لوند خوڑ‘  سردار عبد الرشید خان آ غا خان بابا خان‘ میجر جنرل زاہد عابد‘ لیفٹیننٹ جنرل افضال‘ میاں اقبال اور لالہ ایوب وہ قد آ ور سیاسی ادبی اور سماجی شخصیات تھیں جنہیں ہمیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے‘ لانبے قد کے شعلہ بیان افضل بنگش اپنی سیاسی زندگی کے ابتدائی دور میں نیشنل عوامی پارٹی سے منسلک رہے اور بعد میں انہوں نے مزدور کسان پارٹی کے حوالے سے ملکی سطح پر شہرت حاصل کی‘ سیاسی بیداری کی جو روح انہوں نے کسانوں میں پھونکی تھی اس کے اثرات آج بھی جا بجا ملتے ہیں‘ ارباب سکندر خان جو خیبر پختونخوا کے گورنر بھی رہے نہایت حلیم طبع اور متوازن شخصیت کے مالک تھے خیبر بازار پشاور شہر میں ایک عمارت کے بالاخانے میں ان کادفتر ہوا کرتا تھا جہاں وہ وکالت کے لئے تیاری کیاکرتے تھے ہماری سمجھ سے یہ بات بالاتر ہے کہ ایسے بے ضرر شخص کو کوئی قتل بھی کر سکتا  ہے‘اجمل خٹک کو ہم نے بطور ایڈیٹر دیکھا تھا‘ وہ روزنامہ انجام پشاور کے ادارتی بورڈ کے ساتھ منسلک تھے‘وہ خیبر بازار میں افضل بنگش کے دفتر میں بھی اکثر پائے جاتے۔میاں ضیاء الدین شام کے وقت خیبر بازار پشاور شہر کی ایک عمارت کے بالاخانے میں واقع اپنے دفتر  پچھلے پہر اپنی مرسڈیز میں  روزانہ آ تے جہاں وہ وکالت کا کام کرتے۔