دوغلے پن کی ایک اور مثال

امریکہ  کے صدر نے پسماندہ ممالک کی مختلف شعبہ ہائے زندگی میں مالی معاونت تو روک دی ہے پر اس میں بھی ڈنڈی مار کر دوغلے پن کا مظاہرہ کیا ہے‘ مثلاً اسرائیل تائیوان‘مصر  اور یوکرائن پر اسے من و  عن نافذ نہیں کیا کہ اس کے پیچھے  امریکہ کے سیاسی مفادات کچھ اور قسم کے ہیں  صاف صاف نظر آ رہا ہے کہ وہ مالی اور عسکری میدانوں میں اسرائیل‘یوکرائن اور  تائیوان کی ہر قسم کی امداد جاری رکھے گا اور صرف ان ممالک کا قافیہ تنگ کرے گا کہ جو اس کی ڈگڈگی پر نہیں ناچ رہے‘ امریکی صدر کے اس اقدام سے کئی پسماندہ ترقی پذیر ممالک میں صحت عامہ کے ترقیاتی منصوبوں پر منفی اثر پڑے گا‘ چین کو البتہ امریکی صدر کے اس اقدام سے یہ فائدہ ملے گا کہ وہ امریکہ کے صدر کے اس اقدام سے متاثرہ ممالک کے ترقیاتی منصوبوں میں پیدا ہونے والے خلا ء کو پر کرنے کے لئے ان کی مدد کو پہنچے گا اور اس طرح دنیا میں اس کی ساکھ اور سیاسی اثر و رسوخ میں مزید اضافہ ہو گا اس لحاظ سے چین کے واسطے امریکی  صدر کا مندرجہ بالا اقدام  blessing in disguise ثابت ہو سکتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا اس سے بڑا ثبوت بھلا اور کیا ہو سکتا ہے کہ بیک وقت دنیا کے کئی ممالک اس وقت سردی کی زبردست لہر کی زد میں ہیں اور بارشوں اور سمندری طوفانوں نے وہاں لوگوں کے معمولات زندگی کو تاراج کر کے رکھ دیا ہے تو دوسری طرف  بعض ممالک  میں گرمی کی شدت سے درخت آگ پکڑ رہے ہیں امریکہ کی ریاست لاس اینجلس اس کی زندگی مثال ہے  دنیا کا موسمیاتی سالانہ کیلنڈر  بلا شبہ اب از سر نو مرتب کرنا ہوگا‘یہاں پر اس بات کا ذکر بے جا نہ ہوگا کہ دنیا کے غریب ممالک موسمیاتی تبدیلی کے ہاتھوں جن مالی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں اقوام متحدہ کو اس میں انہیں مناسب مالی امداد میسر کرنے کی ضرورت ہو گی کیونکہ تن تنہا وہ شاید اس کا بوجھ نہ اٹھا سکیں‘یہ بات تو طے ہے کہ کاربن کے بے حد اخراج سے یہ موسمیاتی تبدیلی واقع ہوگئی ہے۔
 جس کے لئے ترقی یافتہ  ممالک جتنے ذمہ دار ہیں‘اتنے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک ذمہ دار نہیں‘ اس لئے اب ان کا  اخلاقی فرض بھی بنتا ہے کہ وہ آ گے بڑھ کر غریب ممالک کی مالی امداد کریں‘ اس ضمن میں اقوام متحدہ کو اپنا کردار بھرپور انداز میں ادا کرنا ہو گا۔