اقوام متحدہ کی ذمہ داریاں

آج کے کالم کا آ غاز ہم پشاور کی ایک ایسی شخصیت کے ذکر سے کریں گے کہ جن سے پشاور کے باسی یا پشاور سے کسی بھی حوالے سے تعلق رکھنے والے وہ افراد ضرور واقف ہوں گے کہ جو آج بقید حیات ہیں اور پچاس یا اسی سال کے پیٹے میں ہیں‘ نئی نسل کے افراد البتہ شاذہی ان سے واقف ہوں‘ ان کا نام تھا سیٹھی عبدالغفور ‘ وہ پشاور شہر کے مشہور تاجر گھرانے کے چشم و چراغ تھے جن کو سیٹھی کہا جاتا تھا اور جن کی تجارت بخارا اور چین اور روس تک پھیلی ہوئی تھی عہد شباب میں ہی سیٹھی صاحب کا مذہب سے اس قدر لگاﺅ تھاکہ انہوں نے تجارت اور دنیا داری کو مذہب پر ترجیح دی ‘ان کا یہ معمول بن گیا کہ روزانہ ظہر کی نماز کے وقت وہ قصہ خوانی بازار پشاور شہر کے وسط میں واقع لاہوری حلوائی کی دکان کے ساتھ متصل مسجد کے دروازے کے ساتھ اذان ہونے کے ساتھ ہی کھڑے ہو جاتے اور ہر آ تے جاتے راہ گیر کوروک کر اس کو مسجد میں جا کر نماز پڑھنے کی تلقین کرتے ‘ سیٹھی صاحب ملیشیا کے کپڑے کی شلوار اور لمبی قمیض میں ملبوس ہوتے اور ہاتھ میں ان کے ایک چھڑی بھی ہوتی ہر صبح کا ان کا معمول یہ ہوتا کہ وہ پشاور کے کسی سکول یا اسلامیہ کالج کی طرف نکل جاتے اور بے دھڑک کسی بھی کلاس روم میں داخل ہو جاتے بھلے اس میں کسی نہ کسی مضمون کا کوئی استاد یا پروفیسر کوئی کلاس کیوں نہ لے رہا ہوتا احتراماً وہ اساتذہ دو تین منٹ کے واسطے اپنا لیکچر بند کر دیتے اور سٹیھی صاحب طالب علموں سے کہتے عربی سیکھو اور سائنس پڑھو وہ طالب علموں کو عربی زبان کا ایک نیا لفظ بھی سکھا جاتے یہ عمل انہوں نے اپنی وفات تک کم وبیش نصف صدی جاری رکھا ان کی رحلت 1961ءمیںہوئی ان کو نمک منڈی کی مسجد کے احاطے میں دفن کیا گیا جو انہی کے خاندان کی تعمیر کردہ ہے ‘پرانے سفید ریش بزرگ پشاوری بتلاتے ہیں کہ پشاور کی تاریخ میں دو ایسے جنازے دیکھنے میں آئے ہیں کہ جن سے بڑے جنازے کسی نے نہیں دیکھے ایک جنازہ تو سیٹھی عبدالغفور کا تھا اور ایک سید جمال الدین افغانی کا کہ جن کا جسد خاکی پشاور سے طورخم افغانستان حکومت کے نمائندوں کو حوالے کرنے جلوس کی شکل میں لے جایا جا رہا تھا اور یہ 1944ءکا ذکر ہے‘اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس جلوس کی قیادت سیٹھی عبدالغفور کر رہے تھے سیٹھی عبدالغفور نے اپنے وقت کے کئی لیڈروں بشمول ہٹلر‘ لینن‘ چرچل اور پوپ کو خط بھی لکھے تھے جن میں دلائل کے ساتھ ان کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔۔ ہو سکتا ہے کئی لوگ صدر ٹرمپ کے اس فیصلے کو گڑے مردے اکھاڑنے سے تعبیر کریں کہ جس کے تحت اگلے روز انہوں نے ایک سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کے بارے میں حقائق جاننے کے لئے اس وقت کی تمام سرکاری دستاویزات کو پبلک کرنے کا حکم دیا ہے پر بعض لوگوں کے خیال میں سچ کی تلاش میں یہ ایک راست اقدام ہے کنیڈی کے قتل کے بارے میں آج تک لوگوں کو یہ پتہ نہ چل سکا کہ اس کے پیچھے ہاتھ کس کا تھا ۔عالمی ادارے اقوام متحدہ کی تشکیل نو وقت کا اہم تقاضا ہے ‘کیونکہ نہ اسرائیل فلسطین میں اپنی چیرہ دستیوں سے باز آ رہا ہے اور نہ بھارت کشمیر میں اور نہ امریکہ تائیوان اور یوکرائن کی بالترتیب چین اور روس کے خلاف ہلہ شیری کرنے سے اور اسرائیل اور امریکہ کے یہ وہ کام ہیں کہ جو تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں‘ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک پر تو اعتبار نہیں کہ وہ اقوام متحدہ کو کمزور ہونے سے بچانے کے لئے اپنا کوئی کردار ادا کریں البتہ چین اور روس سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے اس کو مضبوط اور با اثر بنانے کے لئے ضروری اقدامات اٹھائیں اس کے لئے سفارتی محاذ پر چین اور روس اپنے ہمنوا ممالک کے اشتراک عمل سے ایک گول میز کانفرنس کا انعقاد کر کے اس کے منشور کو ری وزٹ کر سکتے ہیں اور اس میں ضروری اصلاحات لاکر اس کو سیاسی اور انتظامی طور پر مضبوط کر سکتے ہیں ورنہ خدشہ یہ ہے کہ یہ ادارہ بھی لیگ آف نیشنز کی طرح غیر موثر ہو کر اسکی طرح اپنی موت نہ مر جائے باوجود اس کی بعض کمزوریوں کے زمانہ امن میں اقوام متحدہ نے افریقہ اور دیگر بر اعظموں میں اپنے امن مشنز بھیج کر کئی ممکنہ جنگوں کو پھیلنے سے روکا ہے اور دنیا کے کئی ممالک میں کھانے پینے کی چیزوں کے قحط اور جان لیوا بیماریوں کی وباو¿ں کو روکنے کے لئے ضروری طبی امداد کا بندوبست کیا ہے جوقابل تعریف ہے۔
 انڈین فلم انڈسٹری سے منسلک افراد کا آج دنیا کے امیر ترین افراد میں شمار ہوتا ہے یہ لوگ دھن کے حساب سے برلا ٹاٹا اور سہگل جیسے افراد سے کم نہیں جن گھروں میں یہ لوگ قیام کرتے ہیں وہ ماضی کے رو¿سا اور نوابوں کے محلات سے کسی طور کم نہیں ان کے زیر استعمال رولز رائس جیسی قیمتی گاڑیاں ہوتی ہیں آج ان دونوں پیشوں کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ منافع بخش پیشوں میں ہوتا ہے دولت اگر جائز طریقے سے حاصل ہو تو کوئی بری بات نہیں پر اس کا مصرف عوام کے فلاحی کاموں میں ہونا ضروری ہے کسی زمانے میں برصغیر میں آباد پارسی دولت مند طبقہ جن شہروں میں آ باد تھے مثلاً کراچی‘ بمبئی یا کلکتہ تو وہاں جگہ جگہ انہوں نے عوام کے لئے ہسپتال ڈسپنسریاں اور سکول کھول رکھے تھے اور وہ حاجت مند لوگوں کی مختلف انداز اور طریقہ کار سے مالی امداد بھی کیا کرتے تھے عوامی خدمت کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا وہ اپنے اللوں تللوں پر کم اور رفاعی اداروں پر زیادہ خرچ کرتے تھے اس لئے تاریخ کی کتابوں میں آج بھی ان کا نام زندہ جاوید ہے۔