ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ذہنی مریضوں کی دو اقسام ہوتی ہیں پہلی قسم والے مریض خودکشی کرنے کے واسطے اپنا جسم بھی کاٹ سکتے ہیں اور دوسری قسم میں مبتلاء مریض اپنے آپ کے بجائے دوسروں کو جسمانی نقصان پہنچا سکتے ہیں ہٹلر دوسری قسم کا ذہنی مریض تھا آج نہتے فلسطینیوں پر اسرائلی حکمران جس قسم کا تشدد کر رہے ہیں وہ ان مظالم سے کم نہیں جو ہٹلر کے کہنے پر اس کے ساتھی جرنیلوں نے دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں پر 80 برس قبل کئے تھے یہ بات البتہ دلچسپ ہے کہ وہ یہودی جو آج کل امریکہ اور یورپ میں بستے ہیں اور جن کے آباؤ اجداد ہٹلر کی بربریت کا نشانہ بنے تھے وہ آج کی اسرائیلی حکومت کے فلسطینیوں سے ناروا سلوک کو یہودی مذہب کی اقدار کے خلاف قرار دیتے ہیں چونکہ آج کل دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے 80 برس پورے ہو رہے ہیں اور اس حوالے سے اس جنگ کی تباہ کاریوں کا ذکر میڈیا میں کیا جا رہا ہے اس لئے بے جا نہ ہو گا اگر آج کے کالم میں ہم اس جنگ سے جڑے ہوئے چند اہم
واقعات پر ایک طائرانہ نظر ڈال لیں‘ ہٹلر کو جب یہ اطلاع ملی کہ اس جنگ میں اس کے اتحادی ملک اٹلی کے سربراہ اور اس کی اہلیہ کو اٹلی کی شکست کے بعد قتل کر کے ان کی لاشوں کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا ہے تو اس نے نوشتہ دیوار پڑھ کر یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ اس قسم کے انجام سے بچنے کے لئے اپنی جان خود لے لے گا چنانچہ جب اتحادی افواج برلن میں داخل ہونے لگیں تو اس نے پہلے اپنی اہلیہ کو اپنے ہاتھ سے گولی چلا کر شوٹ کیا اور پھر پستول سے اپنے آپ کو قتل اور اس کے بعد اس کے حکم کی تعمیل میں اس کے بیٹ مین batman نے ان دونوں کی لاشوں پر پٹرول
چھڑک کر انہیں آگ لگا دی اور اس طرح جب اتحادی افواج برلن میں داخل ہوئیں تو ان کو ان دونوں کے جلے ہوئے ڈھانچے ملے‘ کہتے ہیں روسی ان جلے ہوئے ڈھانچوں کے کچھ اجزا کو اپنے ساتھ لے گئے جو مشرقی جرمنی کے کسی نامعلوم مقام پر دفنا دیئے گئے‘ہٹلر کے بعض ساتھی جرنیلوں کو تو جنوبی امریکہ کے بعض ممالک نے پناہ دے دی تھی بعض نے خودکشی کر لی اور بعض کو عدالتوں نے قانونی کاروائی کے بعد موت کی سزا سنا دی۔ اس جنگ کے دوران مختلف محاذوں پر ہٹلر اور اس کے ہم خیال ممالک اور مغربی اتحادی افواج کے درمیان جو لڑائی ہوئی اس کو تو بی بی سی نے سیلولائیڈ پر محفوظ کر لیا ہے جو ہر سال جنوری اور اپریل کے دوران ٹیلی ویژن پر باقاعدگی سے ٹیلی کاسٹ کی جاتی ہیں تاکہ نئی نسل دوسری جنگ عظیم کے مختلف زاویوں سے با خبر رہے‘ کیا ہم 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں اپنی بہادر فوج کے کارناموں اور ان سے
پہلے کشمیر کی آ زادی کے لئے اپنے قبائلی بھائیوں کی بھرپور قربانیوں کی داستانوں کو سیلو لائیڈ پر منتقل کر کے ہر سال ناظرین کو دستاویزی فلموں کے ذریعے آ گاہ نہیں کر سکتے۔ کسی دور میں ہر ضلع میں سول ڈیفنس کا ایک فعال ادارہ بھی ڈی سی کی زیر نگرانی کام کیا کرتا تھا جو کسی بھی ناگہانی حادثہ مثلاً آ تشزدگی کو بجھانے یا زلزلے کے متاثرین کی امداد کرتا‘ڈپٹی کمشنر سول ڈیفنس کے ادارہ میں ایک منظم طریقے سے عوام میں سے افرادی قوت کو بھرتی کرتا اور یہ سول ڈیفنس کے رضا کار کہلاتے‘نہ جانے اس کار آمد ادارے کو کیوں ختم کر دیا گیا‘بہت کم لوگوں کو پتہ ہو گا کہ ایک ایسا دور بھی گزرا ہے کہ جب خیبرپختونخوا کو وزیر اعلیٰ سمیت کل چھ افراد نے بطریق احسن کئی برسوں تک چلایا ہے اور سرکاری گاڑیوں کے استعمال میں بھی اسراف کے بجائے قناعت کا مظاہرہ کیا ہے یہ اس زمانے کی بات تھی جب نیانیا پاکستان بنا تھا‘ آج قوم ارباب اقتدار سے یہ توقع رکھتی ہے کہ وہ ہر قسم کے غیر ضروری اخراجات پر بریک لگائیں اورعوام کو ریلیف دیں۔