سداآبادشاہی رب کی 

اس میں کوئی شک نہیں کہ سدآ بادشاہی رب کی ہے۔ابتدائے آفرینش سے لے کر اب تک کرہ ارض پر کتنی بادشاہتیں آئیں‘ پر آج ان کا نشان تک نہیں ملتا‘کیا کوئی سوچ بھی سکتا تھا کہ روم کی بادشاہت پر کسی دن زوال بھی آ سکتا ہے یا سلطنت عثمانیہ کا سورج کبھی غروب ہو گا‘ ماضی قریب کی بات کر لیتے ہیں۔ہماری آنکھوں کے سامنے مصر کے شاہ فاروق کا تخت الٹا‘ان آنکھوں نے شہنشاہ ایران کا دھڑن تختہ ہوتے دیکھا اور افغانستان میں کنگ ظاہر شاہ کو بھی معزول ہوتے دیکھا۔ یہ انگلستان کی خوش قسمتی تھی کہ اسے ملکہ وکٹوریہ اور پھر ملکہ الزبتھ جیسی ٹھنڈے دل و دماغ کی خاتون لیڈرز ملیں کہ جن کے ناموں کے ساتھ کوئی مالیاتی سیکنڈل منسوب نہ تھا اور وہ سیاسی فہم اور ادراک رکھتی تھیں‘ یہ بات اور ہے کہ ملکہ الزبتھ کی اولاد میں ماسوائے پرنس چارلس کے باقی کوئی ایسا فرد پیدا نہ ہو سکا جو ملکہ الزبتھ کی طرح دور اندیش ہوتا‘شاہی خاندان کی نئی جنریشن میں بھی پرنس ولیمز کے علاؤہ کوئی ایسا فرد نظر نہیں آتا کہ جس میں وہ خصلتیں موجود ہوں جو ملکہ الزبتھ میں تھیں اور تو اور ملکہ الزبتھ کے دونو ں پوتوں ولیمز اور ہیری کے مزاج‘ طور و اطوار رہن سہن اور بود وباش میں زمیں آسمان کا فرق ہے‘حالانکہ دونوں ایک جیسے ہی ماحول میں جمے پلے ہیں اور ایک ہی قسم کی تعلیم و تربیت ان کو ملی ہے ولیمز جو انگلستان کا آئندہ بادشاہ ہو سکتا ہے‘خوش اخلاق دھیمے مزاج کا سنجیدہ انسان لگ رہا ہے جبکہ ہیری لاابالی قسم کا کھلنڈرے قسم کا لڑکا ہے ان دونوں کی بیویوں میں بھی کافی فرق ہے‘ ولیمز کی بیوی سنجیدہ خاتون نظر آتی ہے جب کہ ہیری کی بیوی تیز مزاج شوخ طرار لگتی ہے۔

‘ ویسے سلطنت برطانیہ بھی تو وہ سلطنت نہیں رہی کہ جس پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا‘دوسری جنگ عظیم نے اس کو معاشی طور پر اتنی کمر توڑ دی تھی کہ اسے افریقہ اور ایشیا میں کئی کالوینوں کو آزادی دینا پڑی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔