امریکی صدر ٹرمپ نے پاکستان کی مالی امداد معطل کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے اس سے ہمارے کئی شعبہ ہائے زندگی میں جاری ترقیاتی منصوبے معطل ہوں گے ادھر صدر ٹرمپ کے حکم پر امریکی پولیس نے امریکہ میں مقیم غیر قانونی طور پر رہنے والے غیر ملکیوں کے خلاف کریک ڈاؤن بھی بڑے زور و شور سے شروع کر دیا ہے ٹرمپ اپنی دھن کے پکے نظر آ رہے ہیں کیونکہ جس تیزی سے وہ ان اقدامات پر عمل پیرا ہو رہے ہیں جو انہوں نے اپنی الیکشن کی مہم میں صدر منتخب ہونے کی صورت میں لینے کا اپنی قوم سے وعدہ کیا تھا‘ان پر وہ بڑی تیزی سے روزانہ کی بنیاد پر چلتا دکھائی دے رہے ہیں‘ کاش کہ ہمارے ارباب اقتدار بھی وطن عزیز میں غیر قانونی طور پر رہنے والوں کے خلاف اسی قسم کی دلجمعی کے ساتھ کوئی کریک ڈاؤن شروع کریں‘البتہ اگر ٹرمپ نے پانامہ اور گرین لینڈ پر اپنے موقف میں لچک نہ دکھائی اور تائیوان کی چین اور یوکرائن کی روس کے خلاف ہلہ شیری کرنے سے باز نہ آئے تو یہ سودا ان کو مہنگا پڑ سکتا ہے۔کراچی کے تاجروں کا یہ گلہ بجا ہے کہ سندھ کی پولیس سٹریٹ کرائمز پر قابو پانے میں بری طرح ناکام نظر آ رہی ہے جس سے ان کا کاروبار بری طرح متاثر ہو رہا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ پولیس کے نچلے کیڈرز میں کافی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اس کی بھرتی میں میرٹ کی جگہ سیاسی شخصیات کی سفارشات کا زیادہ خیال رکھا جاتا ہے لہٰذا جو پولیس مین ان کی سفارش پر بھرتی ہوتے ہیں وہ پھر عوام کے مفاد کے بجائے ان کے ذاتی مفادات کا زیادہ خیال رکھتے ہیں‘ نیز جسمانی طور پر بھرتی کے وقت ان کی فزیکل فٹنس پر پورا اترنے کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا اس قسم کی پولیس فورس پھر بھلا کیسے ڈلیور کر سکتی ہے‘ اس صورت حال کا ازالہ کرنے کے لئے پولیس فورس کے نچلے کیڈرز میں بھرتی کا جو موجودہ طریقہ کار ہے اسے فوراً ترک کر کے اس کی جگہ وہ سسٹم اپنایا جائے جو افواج پاکستان میں رینکرز یعنی رنگروٹوں کی بھرتی کے لئے رائج ہے‘ شاید ایسا کرنے سے پولیس فورس کی کارکردگی بہتر ہو سکے۔یہاں پر درج ذیل مثال کا حوالہ دینا بے جا نہ ہوگا یہ کوئی زیادہ دور کی بات نہیں نیویارک سٹریٹ کرائمز کی بہتات کی وجہ سے دنیا میں بدنام تھا پھر گلیانی نام کا ایک مئیر تعینات ہوا اس نے ایک ایسی حکمت عملی سے کام لیا کہ نیویارک میں کرائمز کا خاتمہ ہو گیا اور وہ امن کا گہوارہ بن گیا۔
‘ سندھ کے متعلقہ حکام کو ان اقدامات پر غورو خوص کے بعد انہیں کراچی میں نافذ کرنے کی تجویز پر غور کرنا بھی ضروری ہے۔