بھارت میں کشمیریوں کی نسل کشی پر مبنی جرائم کا آغاز پانچ اگست دوہزار اُنیس کے روز ہی نہیں ہوا بلکہ یہ سلسلہ تو 73 سال سے جاری ہے اور بھارت کی جانب سے کشمیری مسلمانوں کے قتل عام کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔ کشمیریوں پر عرصہ حیات ہر دن تنگ سے تنگ کیا جا رہا ہے اور ایک وقت ایسا بھی تھا جب کشمیریوں کو ملک بدر کرنے کے منصوبے بنائے گئے۔ بھارت کشمیریوں کو حق خودارادیت اور اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے نہیں دیتا اور یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لئے بھارت کے دیگر علاقوں سے بڑی تعداد میں ہندوو¿ں کو کشمیر لا کر آباد کیا گیا جس کے باعث جموں میں مسلمانوں کی بجائے ہندوو¿ں کی اکثریت ہو گئی لیکن دنیا جانتی ہے اور نہ صرف کشمیریوں نے بلکہ پاکستان نے بھی اِس بات کو سفارتی ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے کہ بھارت کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی سے لیکر اُن کے سیاسی حقوق بھی پائمال کر رہا ہے۔ پانچ اگست دوہزار اُنیس البتہ کشمیر کی تاریخ میں ایک اور سیاہ باب کا اضافہ ہے۔ جس میں کشمیر کے سیاسی وجود کو ختم کرنے کی سازش کی گئی ہے۔ اِس بارے میں پاکستان کا فوری ردعمل سفارتی‘ علامتی اور دو طرفہ رہا ہے۔ پاکستان کے طول و عرض میں گنتی بورڈ نصب کئے گئے جن کے ذریعے عوام کو ہر دن پانچ اگست دوہزار اُنیس کی یاد دلائی جاتی ہے۔
جیسا کہ دس اگست کے روز کشمیر کی خودمختار آئینی حیثیت میں تبدیلی کے 370 دن گزر چکے ہیں اور یوں گنتی جاری رہے گی تو کیا یا گنتی رکے گی؟ اگر ایسا ہے تو کیا اس کی وجہ یہ ہوگی کہ پاکستان نے بھارت کے زیرتسلط کشمیر کے قبضے اور وہاں نسل کشی کو شکست دی ہے؟ یا اس کی وجہ یہ ہوگی کہ پاکستان‘ زبانی کلامی حملے کر رہا ہے اور استعاراتی علامتی اشاروں کے ساتھ چاہتا ہے کہ ایسا کرنے سے کشمیریوں کی قسمت بدل جائے گی اور بھارت خود ہی کشمیراور کشمیریوں کو اُس کے حال پر چھوڑ دے گا۔پانچ اگست دوہزار اُنیس کے روز پیش آنے والے واقعات کی برسی کو ”یومِ استحصال“ کا نام دیا گیا ہے یعنی ایک ایسا دن جب بھارت نے کشمیریوں کا حقوق غصب کئے اُور استحصال کیا۔ اِس دن کی مناسبت سے تقریروں‘ ریلیوں‘ قراردادوں‘ احتجاجی مارچ‘ گانے اور دعائیں اپنی جگہ اہم ہیں اور اسلام آباد کی کشمیر ہائی وے کا نام بدل کر سری نگر شاہراہ رکھنا بھی معنی خیز ہے جبکہ پاکستان نے یوم استحصال کے موقع پر اپنا نیا سیاسی نقشہ بھی جاری کیا ہے۔ یہ سبھی اقدامات اہمیت کے حامل ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے کہا کہ ”دنیا بھارت کو دیکھ رہی ہے“ اور ”اگر بھارت کشمیریوں کو کچلنے میں بہت آگے جاتا ہے تو دنیا اس کا ردعمل ظاہر کرے گی۔“ غیر ملکی دارالحکومتوں میں بھارتی جبر کے خلاف احتجاج بھی ہوا ہے اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ بھی بھارت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ متعدد ممالک کی پارلیمنٹس نے بھارت پر تنقید کی اور اِس کے خلاف بیانات دیئے ہیں لیکن شاید یہ سب کافی نہیں اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے وزیر خارجہ نے کہا کہ دنیا کشمیر پر بڑی حد تک خاموش ہے۔
انہوں نے عرب حمایت نہ ہونے پر بھی سوال اٹھایا ہے جو اپنی جگہ منطقی ہے۔ پاکستان کے نئے سیاسی نقشے کے بارے میں وزیر اعظم نے وضاحت کی ہے کہ ”یہ بھارتی ڈیزائنوں کے ردعمل کے طور پر ضروری تھا۔“ ذہن نشین رہے کہ بھارت نے چند روز قبل ایک ایسے نقشے کی نقاب کشائی کی تھی جس میں جموں کشمیر کو اپنا حصہ دکھایا گیا تھا۔ تاہم پاکستان واضح تھا کہ اس معاملے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہی حل ہونا چاہئے۔ تو کیا پاکستان کا ردعمل صرف بھارتی پالیسی کا آئینہ دار ہونا چاہئے۔ علامتی کھیل کھیلنا عارضی طور پر گھریلو سامعین کودھوکہ دے سکتا ہے ، لیکن اس سے عالمی برادری پر کوئی تاثر نہیں پڑتا ہے۔ مزید یہ کہ اس نے پاکستان کی کشمیر پالیسی پر سوالات اٹھائے ہیں۔ پاکستان کو ”دو ٹریک کشمیر پالیسی“ اپنانی چاہئے۔ پاکستان کو بات چیت اور اعتماد سازی کے عمل کو شروع کرنے کےلئے موقع کی تلاش کرنی چاہئے تاکہ اصولی طور پر کشمیر سے متعلق تصفیہ اور (ب) بھارت کی جانب سے کشمیریوں کی نسل کشی کی پالیسیوں کا فوری خاتمہ ہو سکے اور بھارت کے زیرتسلط کشمیر کے عوام کے انسانی اور سیاسی حقوق بحال ہو سکیں۔ کشمیر میں بھارت کی نسل کشی روکنے کے لئے پاکستان کو مکمل صلاحیت و آزادی حاصل ہے اور یہ ضروری بھی ہے کیونکہ کشمیر کے حالات سے پاکستان کے وجود کو بھی مہلک خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ عالمی برادری کو بیدار کرکے کشمیر پر مجرمانہ اور نسل کش پالیسیوں سے بھارت کو باز رکھا جا سکتا ہے۔ جنگ اور نسل کشی دونوں کو روکنے کا واحد‘ واحد اور واحد راستہ عالمی دباو¿ ہے۔ کشمیر سے متعلق دو ٹریک پالیسی پر پاکستان میں قومی و سیاسی اتفاق رائے اور اِس مقصد کی سیاسی حمایت ضروری ہے۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: اشرف جہانگیر قاضی۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)