امن کے امکانات

 افغانستان میں اٹھارہ سالوں کے تنازعہ اور تصادم کے بعد امن کے امکانات بہت حوصلہ افزا ءلگ رہے ہیں۔ افغان حکومت کے درمیان ہونے والی بات چیت میں حائل رکاوٹ کو حتمی طور پر ہٹا دیا گیا ہے اور آخر کار اس نے اُن چار سو طالبان قیدیوں کو بھی رہا کرنے پر اتفاق کیا ہے جو سنجیدہ جرائم میں ملوث ہونے کی وجہ سے پہلے مرحلے میں رہا نہیں کئے گئے تھے اور اُن کی رہائی کےلئے لویہ جرگہ سے منظوری لی گئی ہے۔ اُنتیس فروری کو امریکہ اور طالبان کے مابین طے پانے والے امن معاہدے میں واضح طور پر تحریر کیا گیا تھا کہ طالبان اور افغان حکومت قیدیوں کا ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ کریں گے تاکہ دس مارچ کو شروع ہونے والے بین الافغان مذاکرات کی راہ ہموار ہوسکے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ افغان صدر اشرف غنی نے طالبان قیدیوں کی فوری رہائی اور قیدیوں کے تبادلے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ بین الافغان بات چیت کے دوران اس مسئلے پر بات کی جاسکتی ہے۔ افغان صدر کی طرف سے عدم دلچسپی نے ایک ایسی صورتحال پیدا کی جو طالبان اور امریکہ کے مابین معاہدے کو ناکام بنا سکتی تھی جس کے نتیجے میں یہ ملک دوبارہ تنازعات اور عدم استحکام کا شکار ہوسکتا ہے۔ تاہم امریکہ‘ پاکستان اور دیگر علاقائی طاقتوں نے اِس بات کو یقینی بنانے کےلئے اپنی کوششیں جاری رکھیں کہ امن عمل کو پٹڑی سے ہٹنے نہ دیا جائے۔ امریکہ نے خاص طور پر افغان حکومت پر دباو¿ ڈالا کہ وہ امن معاہدے کی پاسداری کرے۔ آخر کار ان کوششوں نے مطلوبہ نتیجہ برآمد کیا جب ہفتے کے آخر میں‘ افغان عمائدین کی بڑی جماعت نے ”بڑے جرائم“ کے الزام میں چار سو طالبان قیدیوں کی رہائی کی منظوری دی تھی جسے حکام نے ابتدائی طور پر رہا کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ان میں 44 باغی بھی شامل تھے جو امریکہ اور دیگر ممالک کو بڑی دہشت گرد کاروائیوں میں مطلوب تھے۔

 علاقائی ممالک کا افغانستان امن میں سب سے زیادہ دلچسپی ہے۔ افغانستان کی طرف سے تنازعہ کے افغان زیرقیادت اور افغان زیر ملکیت حل کےلئے پاکستان کی حمایت کا فیصلہ ملک کے اپنے اسٹریٹجک‘ سلامتی اور معاشی مفادات کے ساتھ ساتھ اس کے ہمسایہ ممالک کےساتھ پرامن بقائے باہمی کی اپنی فطری خواہش کا بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور طالبان کے مابین مکالمہ کےلئے پاکستان انتھک کوششیں کر رہا ہے اور بالآخر بہت ضروری بین الافغانی مذاکرات کی راہ ہموار ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اب جبکہ یہ معاملہ حل کرنے کےلئے انٹرا افغان مذاکرات کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور ہوچکی ہیں اور دونوں فریقین پہلے معاملے میں حل کرنے کےلئے تیار ہیں تو پاکستان نے افغان امن عمل کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کےلئے افغان طالبان کو پاکستان میں مدعو کیا تاکہ تعطل کو دور کیا جا سکے۔ پاکستان ہر قسم کی کوشش کررہا ہے تاکہ افغان امن بحال ہو۔ واضح طور پر مقصد اِس بات کو یقینی بنانا ہے کہ طالبان افغانستان میں تنازعے کا پرامن حل تلاش کرنے اور ان پر عملدرآمد کی کامیابی کی خواہش کو متاثر کرنے کےلئے اپنی سطح پر لچک دکھائیں۔ ممکنہ طور پر آنے والا بین الافغان بات چیت افغانستان میں مستقل امن کے حصول اور مستقبل کے سیاسی ڈھانچے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کےلئے سب سے مشکل اقدام ہوگا۔ اس میں دونوں فریقین کو انتہائی احتیاط‘ لچک اور برداشت کے مظاہرے کی ضرورت ہوگی۔

 اطلاعات کے مطابق پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے طالبان کے وفد کے ساتھ ایک ملاقات میں انہیں اُن اندیشوں اور خطرات سے آگاہ کیا جو افغانستان اور خطے میں امن کی واپسی نہیں دیکھنا چاہتے۔ یقینا افغانستان کے اندر کچھ عناصر موجود ہیں‘ جو جاری و ممکنہ امن عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں جبکہ ذمہ داری یہ عائد ہوتی ہے کہ طالبان اور افغان حکومت تنازعہ ختم کریں اور اپنے لوگوں کو امن دیں جس کے وہ حقدار ہیں ۔ افغانستان تنازعہ کا کوئی فوجی حل نہیں اور سیاسی تصفیہ ہی قیام امن کا واحد راستہ ہے۔امن معاہدے پر عمل درآمد کا مطالبہ کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ پاکستان خطے اور اس سے باہر کے پائیدار امن‘ استحکام اور خوشحالی کے لئے افغان زیرقیادت اور افغان ملکیت میں امن عمل کی حمایت جاری رکھے گا۔ پاکستان اور افغانستان کی تاریخی‘ ثقافتی اور مذہبی رشتے ہے۔ یہ بات بتانا حوصلہ افزا ءہے کہ طالبان وفد نے افغانستان میں امن‘ سلامتی اور ترقی کے لئے کوششوں کی حمایت کی تصدیق کی اور ساتھ ہی افغان مہاجرین کی احسن طریقے سے میزبانی کرنے سمیت افغانستان کے عوام کی مستقل مدد پر پاکستان حکومت کا شکریہ ادا کیا۔

 یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان نہ صرف افغان طالبان سے رابطے میں ہے بلکہ افغان حکومت سے بھی باہمی اختلافات کو ختم کرنے اور اس پر افغانستان اور پورے خطے کے مفاد میں امن کی خواہش پر زور دینے کی تاکید کرتا ہے۔ افغان حکومت کو ملک میں امن و سکون کے زیادہ سے زیادہ مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے دانشمندی سے کام لینا چاہئے۔ افغانستان کو نہ صرف امن کی واپسی میں بلکہ تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے اور معیشت کی تعمیر نو بھی کرنی ہے جو آسان نہیں بلکہ مشکل کام ہے۔ اگر امن کو موقع دیا جائے تو پاکستان اور چین سمیت علاقائی طاقتیں بھی افغانستان کی تعمیر نو کے مرحلے میں مدد کریں گی لیکن شرط یہ ہے کہ افغانستان میں تنازعات ختم ہوں اور یہ ملک تنازعات کی دلدل سے نکالنے میں کامیاب ہو جائے جس میں یہ بُری طرح دھنستا چلا جا رہا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ملک ایم اشرف۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)