کورونا وائرس کے پیشِ نظر کئے گئے ’لاک ڈاو¿ن‘ کا ایک نقصان یہ ہوا کہ بچوں کو عمومی و خصوصی بیماریوں سے بچاو¿ کے لئے حفاظتی ٹیکے لگانے کا عمل بھی متاثر ہوا اور گھر گھر جا کر یہ ٹیکے لگانے والی ٹیمیں مختلف وجوہات کی بنا پر اپنا کام جاری نہ رکھ سکیں۔ ایسا ہونا نہیں چاہئے تھا لیکن اب جبکہ پاکستان میں کورونا وبا کے متاثرہ افراد کی تعداد 9 ہزار سے کم ہو چکی ہے تو ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے اور اُن کی صحت کو اہمیت دی جائے۔ اکثر والدین بچوں کو ٹیکے اِس لئے بھی نہیں لگواتے تھے کیونکہ اُنہیں کورونا وبا لگنے کا خطرہ ہوتا تھا اور یہ ایک بڑی غلط فہمی تھی‘ جس کا آغاز کہاں اور کب ہوا یہ تو نہیں معلوم لیکن ہر دوسرا شخص اِس سازشی نظریئے پر یقین رکھنے لگا ہے! یوں تو کورونا وائرس نے دنیا بھر میں معاشی اور معاشرتی سرگرمیوں کو متاثر کیا ہے لیکن جس انداز میں پاکستان اِس کی وجہ سے متاثر ہوا ہے‘ شاید ہی دنیا کے کسی دوسرے ملک میں کورونا و دیگر بیماریوں کو لیکر اِس قدر منفی باتیں پھیلائی گئی ہوں اور یہی وہ بنیادی سبب ہے جس کی وجہ سے بچوں کے حفاظتی ٹیکوں کے معمولات جاری نہیں رہ سکے۔ طبی ماہرین والدین سے درخواست کر رہے ہیں کہ اگر کسی نے کورونا وبا کی وجہ سے ہسپتال نہ آنے کا فیصلہ کیا اور اپنے بچوں کو ویکسین نہیں لگوائی تو خدانخواستہ یہ بچے گھر بیٹھے بھی پولیو سے متاثر ہو سکتے ہیں اور پولیو سے متاثر ہونے کا مطلب ساری زندگی کے لئے معذوری ہوتا ہے‘ جو لاعلاج ہے۔ پولیو سے بچاو¿ کے لئے علاج موجود ہے لیکن اگر پولیو لاحق ہو جائے تو پھر اِس کا علاج ممکن نہیں اور اِسی لئے پولیو سے بچنے کی واحد صورت اِس اور دیگر بیماریوں سے محفوظ رہنے کے ٹیکہ جات لگوانے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ کورونا کے باعث آٹھ کروڑ بچوں کو خسرہ‘ پولیو اور ہیضے سے بچاو¿ کی ویکسین نہیں لگ پا رہی‘ جس سے ایک سال سے کم عمر بچوں کی صحت کے لئے شدید خطرات پیدا ہو گئے ہیں اور یہ نقشہ پاکستان کا بھی ہے کہ کورونا کے باعث اکثر والدین بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوانے کے لیے ہسپتال لانے سے کترا رہے ہیں کہ کہیں انہیں یا ان کے بچے کو کورونا نہ ہو جائے لیکن دراصل یہ حفاظتی ٹیکے بچوں کو 10ایسی بیماریوں سے تحفظ فراہم کرتے ہیں جو ان کے لئے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہیں۔ حکومت کو شاید اپنے چند فیصلوں پر قوم سے معافی مانگنی چاہئے جیسا کہ لاک ڈاو¿ن کی وجہ سے ہسپتالوں کو بند کر دیا گیا تو اِس سے عوام میں یہ تاثر پھیلا کہ یہ ہسپتالوں کی ’او پی ڈیز‘ جانے سے بھی کورونا وبا لاحق ہو سکتی ہے۔ اِس کے متبادل کے طور پر بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوانے کا سلسلہ ایک خصوصی کیمپس یا مہمات کے ذریعے جاری رکھا جا سکتا تھا اور اِس سلسلے میں کسی حد تک کوشش کی بھی گئی جو ناکافی اور ناکام ثابت ہوئی۔ ذہن نشین رہے کہ حکومت کی جانب سے مرتب کردہ حکمت عالمی بچوں کی صحت سے متعلق عالمی پروگرام کا تسلسل ہے جس کے تحت پیدائش سے ماہ تک کے بچوں کو چھ دفعہ ویکسین دینا لازمی ہے جو اُنہیں کم سے کم 10متعدی بیماریوں سے تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ ان ٹیکوں کا نظام الاوقات کچھ اس طرح سے ہے کہ پیدائش کے وقت پہلا بی سی جی کا ٹیکہ لگتا ہے۔
اورساتھ ہی پولیو وائرس سے بچاو¿ کے لئے دوا کے قطرے بھی پلائے جاتے ہیں پھر ڈیڑھ ماہ یعنی چھ ہفتے کی عمر کے بچوں کو پولیو کی خوراک کے ساتھ پیناٹاویلینٹ اورنمونیہ سے بچاو¿ کی حفاظتی ویکسین کا ٹیکہ لگایا جاتا ہے جبکہ اس کے علاو¿ہ ’روٹا وائرس‘ سے بچاو¿ کی ویکسین بھی دی جاتی ہے۔ بچے کو تیسری خوراک ڈھائی ماہ یا دسویں ہفتے میں دی جاتی ہے اس میں پولیو کی حفاظتی خوراک کے ساتھ پیناٹاویلینٹ‘ نمونیہ اور روٹا وائرس سے بچاو¿ کا دوسرا حفاظتی ٹیکہ لگایا جاتا ہے‘ چوتھی بار چودہویں ہفتے میں یا ساڑھے تین ماہ کی عمر میں پولیو کی تیسری خوراک کے ساتھ پیناٹاویلینٹ نمونیہ سے بچاو¿ کا تیسرا ٹیکہ اور روٹا وائرس سے بچاو¿ کا ٹیکہ لگایا جاتا ہے۔ پانچویں بار نو ماہ کی عمرکے فوری بعد خسرہ سے بچاو¿ کا ٹیکہ اورچھٹی بار پندرہ ماہ کی عمر میں بچے کو خسرہ سے بچاو¿ کا دوسرا حفاظتی ٹیکہ لگایا جاتا ہے۔ بچوں کے اِن حفاظتی ٹیکہ جات کا توسیعی پروگرام برائے پاکستان کے مطابق پیناٹا ویلینٹ ویکسین میں پانچ بیماریوں کی حفاظتی ویکسین شامل ہیں اور یہ ویکسین تمام سرکاری ہسپتالوں اور ڈسپنسریز سے مفت لگوائی جا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ پانچ سال کی عمر پر ڈی پی ٹی یعنی تشنج‘ خناق اور کالی کھانسی کے خلاف بوسٹر لگوانے کا مشورہ بھی دیا جاتا ہے لیکن یہ لازم ویکسین کورس میں شامل نہیں۔ یہ حفاظتی ٹیکے پندرہ ماہ تک کے بچوں میں جن دس مہلک بیماریوں سے لڑنے کے لئے قوت مدافعت پیدا کرتے ہیں۔ ان میں تپ دق‘ کالا یرقان ‘ کالی کھانسی‘ تشنج‘ خناق‘ اسہال‘ گردن توڑ بخار‘ پولیو‘ خسرہ اور نمونیا شامل ہیں۔ یہ ویکسین سرکاری ہسپتالوں سے مفت جبکہ نجی ہسپتالوں سے ایک مرتبہ کی ویکسین کے لئے آٹھ سے دس ہزار روپے وصول کئے جاتے ہیں۔ اکثر والدین متعدد وجوہات کی بنا پر اپنے بچوں کو وقت پر ٹیکے نہیں لگوا پاتے اور دیر ہونے کی صورت میں پورا کورس ہی ادھورا چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسے والدین سے گزارش کی گئی ہے کہ اگر کسی وجہ سے ایک یا دو ہفتے اوپر بھی ہو گئے ہوں تو بھی وہ اپنے بچوں کو بیماریوں سے بچاو¿ کا مکمل کروائیں اور اِسے نظرانداز نہ کریں۔حفاظتی ٹیکے بچے کی صحت مند اور کامیاب زندگی کے لئے اتنے ہی ضروری ہیں جتنی کہ اچھی خوراک‘ تعلیم‘ تربیت اور تحفظ۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر ہما اصغر۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)