بلدیاتی نظام:مسئلے کاحل

 تازہ ترین مسئلہ یہ زیربحث ہے کہ اصلاح کا عمل کہاں سے اور کیسے شروع کیا جائے۔ اِس سلسلے میں ساری توجہ ملک کے ایک شہر پر مرکوز ہے اور ہر کس و ناکس کی خواہش ہے کہ کراچی کے مسائل کا خاتمہ ہو اور اِس سلسلے میں جس حل پر سیاسی و سماجی حلقوں میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ’بلدیاتی اداروں‘ کو فی الفور بحال کیا جائے اور بلدیاتی نمائندوں ہی کے ذریعے کراچی کے مسائل کا حل کیا جائے کیونکہ اِس سے قبل سینکڑوں ارب روپے خرچ کرنے کے باوجود بھی اگر مسئلہ جوں کا توں موجود ہے اور دوبارہ وہی غلطی دہرائی گئی کہ سندھ کی سیاسی جماعتوں کو اربوں روپے ترقیاتی فنڈز جاری کر دیئے گئے تو اندیشہ ہے کہ مسئلہ مسائل جوں کے توں برقرار رہیں گے اور عوام کو سوائے سیاستدانوں کی ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیوں پر مبنی بیان بازیوں سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

 

اگر کراچی کی تعمیروترقی کے لئے مختص وسائل خردبرد کئے گئے ہیں تو اُن کے ذمہ داروں کا احتساب ایک الگ ضرورت ہے اور اگر غیرمعمولی مون سون بارشیں نہ بھی ہوتیں اور سیلاب نہ بھی آتے تب بھی کراچی پر خرچ کی جانے والی پائی پائی کا حساب عوام کے سامنے پیش کرنا چاہئے تھا۔ یہاں بات صرف اور صرف سندھ کے ایک شہر کراچی کی ہو رہی ہے جبکہ اندرون سندھ صورتحال کراچی سے زیادہ مختلف نہیں جہاں کے رہنے والوں کو بدترین حالات کا سامنا ہے لیکن اُن کے بارے میں بہت کم بات ہو رہی ہے۔کراچی کی حقیقت یہ ہے کہ وہاں بلدیاتی نظام غیرفعال ہے۔ بلدیاتی نمائندوں کی موجودگی کے دور میں بھی مالی وسائل اور فیصلہ سازی قانون ساز ایوانوں  کے اراکین کے ہاتھ میں رہی اور اب بھی ہے۔

 سیاسی نمائندے اِس بات کو پسند کرتے ہیں کہ وہ اپنے انتخابی حلقوں کی سیاست کو مضبوط بنانے کے لئے ترقیاتی فنڈز کا بلاشرکت غیرے استعمال کریں اور اپنی مرضی سے ترجیحات کا تعین کریں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنا اُن کا ”جمہوری حق“ ہے لیکن پاکستان شاید دنیا کی ایسی واحد جمہوریہ ہے کہ جہاں جمہوریت کو سمجھا ہی نہیں گیا لیکن اِس پر ڈٹ کر عمل درآمد ہو رہا ہے۔اکتوبر 2012ء میں سندھ کا بلدیاتی قانون منظور ہوا تھا‘ جسے ’سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2012ء‘ کا نام دیا گیا۔ اِس قانون نے فروری 2013ء سے لاگو مختلف قوانین کی جگہ لی جن میں 2012ء اور 1979ء کے قوانین شامل تھے۔ اِس کے بعد اگست 2013ء میں ایک اور قانون لایا گیا جسے ’سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء‘ کہا گیا۔

 

تعجب خیز حقیقت یہ ہے کہ ایک سال کے عرصے میں تین مرتبہ بلدیاتی قانون تبدیل کرنیو الا سندھ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کا عجوبہ صوبہ ہے کیونکہ دنیا بھر میں بلدیاتی اداروں کے قوانین میں ترامیم ہوتی ہیں لیکن اُنہیں تبدیل نہیں کیا جاتا اور ایسے ممالک بھی ہیں جہاں درجنوں سال نہیں بلکہ دہائیوں سے ایک ہی بلدیاتی قانون رائج ہے اور جہاں کہیں خرابی محسوس ہوتی ہے‘ وہاں قانون کو ترمیم کر کے درست کر لیا جاتا ہے اور حالات کے مطابق ترامیم بھی ضروری نہیں ہوتیں بلکہ ادارہ جاتی قواعد و ضوابط میں تبدیلیاں کرلی جاتی ہیں کیونکہ مغربی معاشروں میں بلدیاتی نظام ہی اُن کی ترقی کی بنیاد ہے اور اِسی وجہ سے وہ ترقی یافتہ کہلاتے ہیں جبکہ پاکستان میں چونکہ بلدیاتی نظام نہیں اِس لئے پاکستان کو ترقی پذیر اور پسماندہ دیکھا جا سکتا ہے کہ اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود بھی شہری و دیہی زندگی میں بنیادی سہولیات تک میسر نہیں اور سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو طعنے دے رہی ہیں۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کی کہانی  ایک ہے۔


 اِن کے اراکین کی مالی حیثیت ”عام انتخابی سیاست“ میں آنے سے پہلے اور بعد میں تبدیل ہو چکی ہے۔ سرکاری اداروں کو اِس حد تک تباہ کر دیا گیا ہے کہ اب وہ کام کرنے سے معذور ہو چکے ہیں۔ قانون کی حکمرانی اور احتساب کو اِس حد تک مشکوک بنا دیا گیا ہے کہ اب سوائے عام آدمی کے کسی بھی خاص کا احتساب نہیں ہوتا۔ جس کے خلاف مقدمات بنیں وہ بیمار ہو کر کچھ عرصے کیلئے ملک سے باہر چلا جاتا ہے اور حالات معمول پر آتے ہی واپس آ کر حکومت کرنے لگتا ہے۔ اِس کام میں صرف سیاستدان ہی نہیں بلکہ سرکاری ملازمین بھی شریک ہیں جو کسی ایک حکومت کے ہمنوا بن کر قومی وسائل کی خرد برد اور لوٹ مار میں مصروف رہتے ہیں اور حکومت تبدیل ہوتے ہی بیرون ملک منتقل ہوجاتے ہیں‘ جہاں اُنہوں نے پہلے ہی اپنا غیرقانونی سرمایہ چھپا رکھا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے سر پر اِس بات کا خطرہ منڈلا رہا ہے کہ یہاں سے ’منی لانڈرنگ‘ کے باعث عالمی پابندیاں عائد کر دی جائیں۔

تصور کریں کہ ہمارے سیاستدانوں نے صرف حسب حال ترقیاتی عمل ہی کو نقصان نہیں پہنچایا بلکہ اُنہوں نے پاکستان کی عالمی ساکھ بھی برباد کر کے رکھ دی ہے اور اپنے اہل عیال کو تو بیرون ملک منتقل کر بیٹھے ہیں جبکہ پاکستان کے عوام کو ایک ایسے ماحول میں‘ ایسے حالات کے سپرد کر دیا ہے کہ اُن کی جان و مال کہیں جرائم پیشہ عناصر تو کہیں قدرتی آفات کے نشانے پر ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں ایسی آفات کو قدرتی کہا جاتا ہے جو انسانوں کی اپنی بنائی ہوئی ہیں!سندھ کا موجودہ بلدیاتی نظام ’ایس ایل جی اے 2013ء‘ اب تک 8 مرتبہ تبدیل ہوا ہے۔ یہ قانون دسمبر 2015ء میں منظور کیا گیا تھا۔ قانون میں یہ تبدیلیاں 2 مرتبہ بذریعہ آرڈیننس اور 6 مرتبہ بذریعہ سندھ کی صوبائی اسمبلی کی گئیں۔

 

اگر بغور دیکھا جائے تو سندھ اسمبلی نے اِس سلسلے میں خاطرخواہ دلچسپی نہیں لی اور یہی وجہ ہے کہ بلدیاتی قانون کی منظوری اور اِس میں ترامیم و تبدیلیاں جب کبھی بھی کی گئیں اُن پر خاطرخواہ انداز میں غوروخوض نہیں کیا گیا لیکن جب ہم بلدیاتی نظام اور طرز حکمرانی کی بات کرتے ہیں تو بات صرف سندھ اور کراچی کی حد تک ہی محدود نہیں بلکہ پاکستان کے کسی بھی حصے میں بلدیاتی نظام اپنی اصل شکل و صورت میں رائج نہیں اور یہی وہ بنیادی ضرورت ہے کہ جس پر قومی سطح پر ہنگامی حالات نافذ کرکے عمل ہونا چاہئے۔ پورے ملک میں بلدیاتی انتخابات بلاتاخیر کرائے جائیں۔ بلدیاتی اداروں کو مضبوط کیا جائے اور تعمیروترقی کا عمل سوفیصد عوام کے منتخب بلدیاتی نمائندوں کو سونپ دیا جائے۔ صوبائی اور وفاقی حکومتیں اپنے اداروں اور ذرائع ابلاغ کی مدد سے بلدیاتی اداروں کی کارکردگی پر نظر رکھ سکتی ہیں لیکن یہ عمل بھی صرف اور صرف نگرانی کی حد تک ہی ہونا چاہئے۔ وقت ہے کہ عوام کو فیصلہ سازی اور حکمرانی سونپ دی جائے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: مشرف زیدی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)