سوشل میڈیا کی دنیا عجیب ہے جہاں اِنتہائی غیر سنجیدہ سے لے کر اِنتہائی سنجیدہ اور پرمعنی تبصرے بیک وقت مل سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا کا المیہ یہ ہے کہ وہاں بسا اوقات مخالفت میں اُس حد کو بھی عبور کر لیا جاتا ہے جسے تہذیب کہا جاتا ہے اور ایک دوسرے کی مخالفت میں ایسی ایسی باتیں سننے کو ملتی ہیں جو نہیں ہونی چاہئیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ بسا اُوقات ایک ہی تبصرہ بحث کی راہ کو بہت ہی مختلف سمت کی طرف موڑ دیتا ہے اور غیر سنجیدہ بحث کی وجہ سے اکثر سنجیدہ مسئلہ کہیں گم ہو جاتا ہے یا اس کے برعکس ایک تبصرہ سوچنے لگتا ہے کہ ایسی چیزوں کو سنجیدگی سے کیوں نہیں لیا جاتا۔
بالخصوص ہمارے ملک میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ سنجیدہ باتیں غیرسنجیدہ تبصروں کی نذر ہو جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ دن پہلے ہی ایک ٹویٹ اِس متعلق سامنے آیا کہ ایک ہسپتال نے ایک مریض کا علاج کرنے سے پہلے بیان حلفی طلب کیا۔ اَصولاً انسانی جان زیادہ اہم ہونی چاہئے کہ علاج فوری شروع کیا جائے اور کاغذی کاروائی بعد میں ہوتی رہے لیکن کئی علاج گاہوں میں سرجری کے لئے سرپرست کی جانب پیشگی رضامندی کی ضرورت ہوتی ہے اور اِس بات کو لیکر سوشل میڈیا پر بحث جاری ہے اور متعدد تبصرے کئے جا رہے ہیں اور مطالبہ یہی ہے جو کہ جائز ہے کہ حکومت اِس سلسلے میں ہونے والی بے قاعدگیوں کا نوٹس لے اور غیرضروری کاغذی مراحل کو ختم کرے۔ اِس موقع پر یہ سوال اُٹھانا کہ کیا پاکستان اسلامی ریاست ہے قطعی طور پر درست نہیں کیونکہ اِسلام کا اِس پورے معاملے سے کچھ بھی لینا دینا نہیں۔
اِسی طرح ایک بحث نصاب تعلیم سے متعلق ہے جس میں طب کے حوالے سے تعلیم کے کچھ اسباق طالبات کو نہیں پڑھائے جاتے جبکہ یہ اُن کے نصاب کا حصہ ہوتی ہے اور ایسی کوئی بھی تمیز نہیں برتنی چاہئے۔ تعلیم اور تدریس دراصل مستقبل کی نسل تیار کرنے کا شعبہ ہے یہاں پر طلباءطالبات کو جس قدر زیادہ مفید اور روزمرہ مسائل کو حل کرنے کے حوالے سے قابل قدر معلومات دی جائیں اتنی ہی تعلیم زیادہ مفید اور بار آور ثابت ہوگی اور یہی کسی بھی ملک میں تعلیم کے شعبے کا اہم مقصد ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
بچوں بچیوں کو اگر ابتدائی عمر سے اُن کے جسم میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے آگاہ نہیں کیا جائے گا تو وہ عمر بڑھنے کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی نہیں کر پائیں گے اور یہ بات بھی لائق توجہ ہے کہ بچے بچیوں کی تعلیم میں کوئی بھی موضوع حساس قرار نہیں دینا چاہئے کیونکہ اگر ہم اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دیں گے تو پھر تعلیم کا مقصد کیا رہ جائے گا؟ بچوں کی پرورش و تربیت کے مسائل بھی اُسی صورت حل ہو سکتے ہیں جبکہ بچوں کو اِن کے بارے میں کماحقہ آگاہی دی جائے۔
جہاں تک اِس بات کا تعلق ہے کہ پاکستان کا سماجی ماحول ایسا نہیں ہے کہ بچوں سے سنجیدہ باتیں کی جائیں تو اِس غلطی کی اصلاح ہونی چاہئے کیونکہ اگر والدین سرپرست اور معلم بچوں کی ذہن سازی نہیں کریں گے تو وہ سوشل میڈیا کے حوالے ہو جائیں گے جہاں غلط معلومات اُن کے تصورات کو اُلجھا دے گی اور وہ غلطیوں پر غلطیاں کرتے چلے جائیں گے اور یہ تصور تو بالکل ہی غلط ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو ماہر نفسیات کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اکثر گھریلو ماحول میں بچوں کو نفسیاتی معالجین سے مشورے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ زندگی اور سماج کے روئیوں کو سمجھ سکیں۔ پاکستان اکیسویں صدی سے گزر رہا ہے لیکن یہاں سترہویں اور اٹھارہویں صدی کے نظریات ملتے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کی طرف چلے جا رہے ہیں۔(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: رضوانہ نقوی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)