کون بچا ئے کر ا چی ؟

کراچی کے مسائل کا تعلق یہاں کے جرائم اور سیاست کے درمیان گٹھ جوڑ سے ہے‘جس طرح کوئلے کی سوداگری کرنے والے سر سے پاو¿ں تک کوئلے کی سیاہ گرد میں اَٹے ہوتے ہیں بالکل اِسی طرح کراچی کے سیاسی اور جرائم پیشہ کان کنوں کو پہچاننا قطعی مشکل نہیں‘ جن کی وارداتیں ہر روز کا معمول بن چکی ہیں۔سال 1879ءمیں تھامس ایڈیسن نامی معروف سائنسدان نے بجلی کا بل ایجاد کیا تھا۔ 1913ءمیں کراچی کے میئر سیٹھ ہرچند رائے نے کراچی میں بجلی متعارف کروائی اور یہی وہ سال تھا جب کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا‘ جسے عرف عام میں ’کے الیکٹرک‘ کہا جاتا ہے۔

 

1913ءمیں میئر نے کراچی میں سڑکیں‘ سبزہ زار‘ باغات‘ الگ الگ رہائشی و تجارتی علاقے اور تفریحی مقامات بھی متعارف کروائے اور کراچی کی اہمیت و ضروریات کو سمجھا۔ تصور کیجئے کہ آج سے سو سال پہلے کراچی کو ’روشنیوںکے شہر‘ ہونے کا لقب دیا گیا تھا لیکن بعدازاں یہ شہر ’تاریکیوں‘ سے تعبیر کیا جانے لگا کراچی کے 5 بڑے مسائل میں نکاسی¿ آب سرفہرست ہے بالخصوص کراچی سے بارش کے پانی کی نکاسی پہلا مسئلہ ہے۔ دوسرا مسئلہ پینے کے پانی کی فراہمی ہے۔ تیسرا کوڑا کرکٹ کی تلفی‘ چوتھا پبلک ٹرانسپورٹ اور پانچواں طرز حکمرانی۔ جب ہم کراچی کے طرزحکمرانی کی بطور مسئلہ نشاندہی کرتے ہیں تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے

 

کہ یہاں سیاست اور جرائم نے آپس میں گٹھ جوڑ کر لیا ہے‘ جس کے باعث مذکورہ چاروں مسائل کے لئے بھاری رقومات مختص ہونے کے باوجود بھی یہ مسائل حل نہیں ہوتے۔کراچی میں بارش کے پانی کو نکاس کرنے کے لئے 552 نالے ہیں جو یہاں کے مختلف علاقوں سے پانی کو لیاری اور ملیر نامی دریاو¿ں میں ڈال دیتے ہیں اور پھر یہ پانی سمندر میں جا گرتا ہے لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ مذکورہ نالے کوڑا کرکٹ ڈالنے کی وجہ سے یا تو بند ہو چکے ہیں یا پھر اِن نالوں پر تجاوزات قائم ہونے کی وجہ سے پانی کی گزرگاہیں تنگ ہو گئی ہیں جو ناکافی ہیں۔ تصور کریں کہ جو نالہ کبھی 400 میٹر چوڑا ہوتا تھا اُس کی چوڑائی صرف 4 میٹر رہ گئی ہو تو کیا اُس کا وجود اور مقصد باقی رہ جاتا ہے؟

 

کراچی کو یومیہ 1200 ملین گیلن پانی چاہئے جبکہ اِسے یومیہ 665 ملین گیلن پانی فراہم کیا جارہا ہے اور اِس 665 ملین گیلن پانی میں سے بھی 232 ملین گیلن پانی ترسیلی نظام کی خرابیوں کے باعث ضائع ہو جاتا ہے اور صارفین تک نہیں پہنچ پاتا۔ سال 2008ءمیں ڈیفنس ہاو¿سنگ اتھارٹی کے نام سے قائم ہونے والی جدید رہائشی بستی کے لئے 115 ملین ڈالر کی لاگت سے پانی کی تطہیر کا ایک پلانٹ لگایا گیا جو سمندر کے کھارے نمکین پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ مذکورہ پلانٹ خریدا گیا۔ اِسے نصب کیا گیا

 

لیکن یہ پہلے دن سے آج تک چلایا نہیں جا سکا یعنی ساڑھے گیارہ کروڑ ڈالر خرچ کرنے کے باوجود بھی مذکورہ واٹر پلانٹ سے ایک بوند پانی حاصل نہ ہوسکا۔ علاوہ ازیں کراچی میں پانی کی مانگ اور ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف اوقات میں کئی غیرملکی کمپنیوں نے یہاں سمندر کے کھارے پانی کو قابل استعمال بنانے کے لئے سرمایہ کاری کی خواہش کا اظہار کیا لیکن اُنہیں کراچی کے فیصلہ سازوں کی طرف سے خاطرخواہ گرمجوش ردعمل دیکھنے کو نہیں ملا۔ فیصلہ سازوں کی اِس عدم دلچسپی پر مبنی کارکردگی سے عیاں ہے کہ کراچی کو اگر حسب آبادی پینے کا پانی نہیں مل رہا تو اِس کی وجہ سے وسائل کی کمی یا امکانات کی کمی نہیں بلکہ کراچی کے سیاسی فیصلہ ساز ہی نہیں چاہتے کہ اِس شہر کا ایک دیرینہ یعنی آبنوشی کا مسئلہ کسی صورت حل ہو۔کراچی میں ہر دن 20 ہزار ٹن کوڑا کرکٹ پیدا ہوتی ہے جبکہ اِس شہر میں گندے پانی اور گندگی کو ٹھکانے لگانے کے لئے 3 ٹریٹمنٹ پلانٹس موجود ہیں

 

اور یہ تینوں پلانٹس غیرفعال ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صنعتوں سے خارج ہونے والے کیمیائی زہریلے مادوں پر مشتمل گندا پانی بھی بنا صاف کئے سمندر میں ڈال دیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں کراچی کے طول و عرض میں علاج گاہوں‘ ہسپتالوں اور طبی مراکز سے جو گندگی پیدا ہوتی ہے وہ بھی حسب ضرورت محفوظ طریقے سے تلف نہیں کی جاتی۔کراچی کی قریب چالیس فیصد آبادی پبلک ٹرانسپورٹ پر انحصار کرتی ہے جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ کی صورتحال یہ ہے کہ ہر 45 افراد کے لئے بسوں میں صرف ایک نشست کے تناسب جگہ دستیاب ہے۔ کراچی کے بارے میں منصوبہ بندی کرتے ہوئے تین قسم کی خامیاں پائی جاتی ہیں۔ جن میں منصوبہ بندی‘ ترقیاتی اور انتظامی خامیاں شامل ہیں۔ کراچی میں تین قسم کے وسائل کی بھی کمی ہے۔ اِن میں افرادی قوت‘ تکنیکی وسائل اور مالی وسائل شامل ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کراچی پر سب سے زیادہ ظاہر ہونے کی ایک وجہ یہاں کی آبادی بھی ہے جس میں بنا منصوبہ بندی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے کراچی کی نشاة ثانیہ اور یہاں کے جملہ مسائل کے حل کے لئے 31 اگست کے روز ’ٹرانسفورمیشن پلان‘ کا اعلان کیا لیکن کیا اُنہوں نے اِس حکمت عملی کو وضع کرنے کے لئے متعلقہ شعبوں کے ماہرین کی خدمات حاصل کیں یا فیصلہ سازی پر اپنے اختیار کا استعمال کرتے ہوئے سینکڑوں ارب روپے کا ترقیاتی منصوبے کا اعلان کر دیا۔ ذہن نشین رہے کہ ماضی میں بھی اِسی قسم کی بڑی رقومات کراچی میں خرچ ہو چکی ہیں جن سے کراچی کے مسائل میں کمی کی بجائے اضافہ دیکھنے میں آیا تو کہیں تاریخ اپنے آپ کو دہرا تو نہیں رہی؟ کہیں موجودہ وفاقی حکومت بھی وہی غلطی تو نہیں کر رہی جو ماضی میں بھی ہوئی اور جس کا نتیجہ کراچی کے مسائل کی صورت ہمارے سامنے موجود ہے؟ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)