پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی (پیپکو) کے اِنتظامی معاملات میں اصلاحات متعارف کروائی گئی ہیں اور اب اِس ادارے کا کردار بجلی کے تقسیم کار اداروں کی نگرانی اور کام کاج میں معاونت جیسے امور تک وسیع ہوگی۔ اِس سلسلے میں پیپکو کے اختیارات کو قانونی تحفظ بھی دیا گیا ہے لیکن اِس اقدام کے بارے میں کچھ تحفظات بھی سامنے آئے ہیں۔ پاکستان میں بجلی کی پیداوار اور اِس کی تقسیم کے حوالے سے معاملات کی اصلاح کا مطالبہ ایک عرصے سے کیا جا رہا تھا اور جو کچھ بھی ہوا ہے وہ بڑی حد تک متوقع تھا۔ پیپکو کا قیام واپڈا کے انتظامی کنٹرول کو بانٹنے کی صورت سامنے آیا تھا‘ جو تن تنہا پاکستان میں بجلی کی پیداوار‘ پیداواری شعبے کی ترقی اور بجلی کی تقسیم جیسے تینوں بنیادی کام سرانجام دیتا تھا۔ واپڈا کی اجارہ داری ختم کرکے صرف پیپکو ہی نہیں بنایا گیا بلکہ کئی دیگر ادارے بھی قائم ہوئے اور انہی میں بجلی کے نجی ادارے کی نگرانی بھی شامل تھی۔ مختلف ادارے بننے کے بعد بھی واپڈا کا ادارہ موجود ہے جو فی الوقت خودمختار حیثیت میں بجلی سے پیدا ہونے والی بجلی اور پانی کے امور کو دیکھتا ہے۔ اِسی طرح ’پی اے اِی سی‘کے نام سے بنایا گیا ادارہ جوہری ٹیکنالوجی سے حاصل ہونے والی بجلی کے معاملات کو دیکھتا ہے تاہم پیپکو اپنی موجودگی کے باوجود کم و بیش حد تک تحلیل ہوگیا تھا‘ زیادہ تر ڈسکو مینجمنٹ اور پیپکو کے مابین تناؤ اور سیاست کے نتیجے میں کئی پیچیدگیاں پیدا ہوئی تھیں۔ جنہیں ختم کرنے کیلئے ایک نئے نظریئے کے تحت اور آزاد بورڈ آف ڈائریکٹرز (بی او ڈی) قائم کیا گیا جس کے تحت ڈسکو کو خودمختاری اور آزادی حاصل ہوئی۔ اب بی او ڈی کا ہنی مون کا دور بھی ختم ہوچکا ہے۔ اس دوران مختلف بورڈ آزمائے جاچکے ہیں اور متوقع نتائج پیش نہیں کرسکے کیونکہ زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ غلط توقع تھی۔ یہ بورڈز پیشہ ور افراد کو راغب نہیں کر سکے اور نہ ہی ان کو شامل کرنے کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش کی گئی۔ سیاسی مداخلت اور دیگر منفی اثرات نے بھی ماضی میں بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تشکیل کو بڑی حد تک متاثر کیا۔ یہاں تک کہ اگر بورڈ مکمل طور پر پیشہ ور افراد پر مشتمل ہوتے تب بھی یہ توقع کرنا مشکل تھا کہ وہ ڈسکو کے ساتھ پیش آنے والے معاملات کو سنبھال لیں گے۔ ٹی اینڈ ڈی نقصانات کو کم کرنے‘ وصولیوں میں اضافے وغیرہ جیسے امور کے بارے میں ہر مہینے میں دو گھنٹے کی میٹنگ اِس گھمبیر معاملے میں کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟ بورڈ آف ڈائریکٹرز کا محدود قانونی نوعیت کی نگرانی میں بھی پیپکو کا کردار ہے۔ کسی بھی صورت میں‘ بورڈز زیادہ طاقت سے لطف اندوز نہیں ہوئے‘ مؤثر کنٹرول اور کوآرڈینیشن وزارت پانی و بجلی اور اب پاور ڈویژن کے سپرد ہے۔ وزارت پانی و بجلی اور بعد میں پاور ڈویژن نے وہی کرنے کی کوشش کی جو نہ تو ان سے توقع تھی اور نہ ہی وہ اس قابل تھے۔ انہوں نے وزارت کو اس طرح منظم نہیں کیا جس طرح پیٹرولیم کی وزارت اور ڈویژن نے کیا تھا۔ ان کے پاس تیل‘ گیس‘ پالیسی‘ مراعات وغیرہ کیلئے متعدد ڈائریکٹوریٹ ہیں نتیجہ یہ ہے کہ پیپکو کی بحالی کا عقلی جواز سامنے آیا ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وزارت پانی و بجلی اور پاور ڈویژن نے اس کی حمایت کی ہے۔ یہ ان کا بڑا پن ہے کہ انہوں نے اس کی اجازت دی اور ایسا لگتا ہے کہ اس میں ہر طرف اتفاق رائے موجود ہے۔ اب بھی بہت ساری طاقتور وزارتیں انہی کے پاس ہیں لیکن پیپکو اصلاحات کی وجہ سے روزمرہ کے امور اور بالخصوص آپریشنل امور میں ملوث ہونے کا امکان ختم ہوجاتا ہے۔بنیادی بات یہ ہے کہ پیپکو کو کسی بھی صورت غیر ضروری یا بوجھ نہیں سمجھا جانا چاہئے۔ یہاں تک کہ نجی اداروں کے پاس گروپ اور ہیڈ آفس ٹیمیں ہوتی ہیں جو انفرادی کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے باوجود متعدد کمپنیوں کی نگرانی اور رابطہ کیلئے ہوتی ہیں اگرچہ انفرادی آپریٹنگ کمپنیاں خودمختار ہیں لیکن اِس مرحلے پر علم اور تجربے کے اشتراک کی یکساں ضرورت ہے۔ وسائل کو جمع کرنے اور اُن سے سبھی اداروں کا حسب ضرورت استفادہ کرنے سے بچت ممکن ہے۔ امداد اور قرض دینے والے اداروں نے ہمیشہ مقامی افرادی قوت کی صلاحیت و استعداد میں اضافے کی حوصلہ شکنی کی اور بین الاقوامی مقابلے کو فروغ دیا گیا جس سے بین الاقوامی کمپنیوں کی منڈی کو بڑھانے میں مدد ملی ہے اور مقامی کمپنیوں اور ملک کی ٹیکنالوجی کی ترقی کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ سی پی ای سی کے تحت‘ جو کہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ باہمی فائدے کا انتظامی ادارہ ہے‘ نے بھی مقامی کمپنیوں پر غیرملکیوں کو ترجیح دی۔ چین اس وقت سے بدل گیا ہے جب اس نے ایچ ایم سی‘ ریلوے کیریج فیکٹری اور دیگر کاروباری اداروں کو سنبھالا دیا ہے لیکن اصل مسئلہ ادارہ جاتی رسہ کشی‘ اختیارات اور سیاسی مداخلت کا ہے‘ جس کا اختتام بھی ضروری ہے۔ اب تک کے مسائل یہ ہیں کہ ہم ہمیشہ مغربی ماڈل کی پیروی کرتے رہے ہیں اور اپنے ماحول و ضرورت کے مطابق انتظامی بندوبست تشکیل نہیں دے سکے جس کی وجہ سے پاکستان کی ادارہ جاتی اصلاح خاطرخواہ تیزرفتاری سے آگے نہیں بڑھ رہی۔ مغربی کمپنیوں میں جی ای‘ بوئنگ‘ مائیکروسافٹ جیسی کمپنیاں نمایاں ہیں جنہوں نے ٹیکنالوجی کو ترقی دی ہے لیکن اِس کے ساتھ ہی اِن کمپنیوں کی عالمی مارکیٹ اور ٹیکنالوجی کی ترقی و تحقیق میں شراکت ہے۔ چھوٹے اور پسماندہ ممالک میں‘ کمپنیاں قومی تکنیکی بنیاد کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بہت کم ہیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے پاکستان کو توجہ دینا ہوگی کہ وہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں تحقیق اور ایجادات میں خود کفیل ہو۔ چین کی مثال موجود ہے جس نے ٹیکنالوجی کے لئے مغربی ممالک پر اپنا انحصار کم کیا ہے اور بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ہیں جن کی وجہ سے چین سٹیل‘ کیمیکلز اور دیگر کے شعبوں میں وہ امریکہ و دیگر ممالک کے اداروں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: سیّد افتخار علی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
ناقابل فراموش شہادت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مہلک موسم
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام