ایسوفیگس کینسر سے برسوں قبل آگاہ کرنے والا ڈی این اے ٹیسٹ

 حلق اور ایسوفیگس (ٖغذائی نالی) کا سرطان بہت تکلیف دہ اور علاج میں مشکل ہوتا ہے۔ لیکن اب کیمبرج یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ایک ایسا ڈی این اے ٹیسٹ بنایا ہے جو کئی برس قبل حلق کے کینسرسے خبردار کرسکتا ہے۔
اس کے لئے پہلے ایک بات سمجھنا ضروری ہے کہ جہاں غذائی نالی معدے میں کھلتی ہے پہلے وہاں معمول سے ہٹ کر خلیات جنم لینے لگتے ہیں اور اس کیفیت کو بیرٹس ایسوفیگس کہا جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ خلیات سرطان زدہ ہوجاتے ہیں اور اس پورے عمل میں ان کی شناخت اور علاج بہت مشکل ہوتا ہے۔
اس ضمن میں کیمبرج یونیورسٹی اور یورپی بایوانفارمیٹکس انسٹی ٹیوٹ (ای بی آئی) کے اشتراک سے 777 مریضوں کا جائزہ لیا جو بیرٹس ایسوفیگس کے شکار تھے جبکہ ان کا موازنہ دیگر سینکڑوں صحتمند افراد سے کیاگیا۔ اس طرح انہوں نے دونوں گروپ کے افراد کے ڈی این اے اور جینیات کا تفصیلی جائزہ لیا۔
اس معلومات کی روشنی میں ایک  شماریاتی ماڈل بنایا گیا اور انہیں 76 مریضوں پر آزمایا۔ ماڈل نے 66 فیصد مریضوں میں دو برس کے اندر اندر سرطانی کی پیشگوئی کی جو پوری ہوئی جبکہ باقی مریضوں کو اٹھ سال بعد بھی کینسر لاحق ہوگیا۔
اس اہم کامیابی کے بعد ماہرین نے کہا ہے کہ اس طرح علاج میں مدد ملے گی، جانیں بچانا ممکن ہوگا اور بایوپسی اور دیگر ٹیسٹ کا بوجھ 50 فیصد تک کم ہوجائے گا۔
تحقیق کی سربراہ ریبیکا فرٹزجیرالڈ کے مطابق سرطان کی پہلے سے تشخیص مریضوں کی زندگی بڑھاسکتی ہے بلکہ اس سے سرطان کا جڑ سے خاتمہ کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ جو مریض مستقبل میں حلق یا غذائی نالی کے سرطان کے شکار بنے ان کے ڈی این اے میں مخصوص مقامات پر بار بار ایک ہی سیکوئنس کی تکرار دیکھی گئی۔
نیچر میڈیسن میں شائع ہونے والی اس تحقیق کی بدولت ہم جان سکتے ہیں کہ کس طرح جینیاتی ٹیسٹ غذائی اور حلق کی نالی کے سرطان کاقبل ازوقت انکشاف کرسکتا ہے۔ واضح رہے کہ ایسوفیگس کا سرطان مردوں کو لاحق ہونے والا چوتھا بڑا کینسر ہے جو ہرسال جانوں کا خراج وصول کرتا ہے۔