ترقی کا مستقبل

کراچی توجہات کا مرکز ہے جس کے لئے وزیراعظم عمران خان نے 1100 ارب روپے جیسا غیرمعمولی اور تاریخی ترقیاتی پیکیج کا اعلان کیا ہے لیکن جب ہم کراچی کے مسائل کو مدنظر رکھتے ہیں تو یہ غیرمعمولی رقم بھی معمولی لگنے لگتی ہے کیونکہ پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شہر اور قومی آمدنی میں ساٹھ فیصد سے زائد حصہ داری رکھنے والا کراچی آبادی کے بڑھتے ہوئے تناسب کو مدنظر رکھتے ہوئے وسیع نہیں ہوا اور نہ ہی یہاں فراہم کی جانے والی سہولیات میں حسب ضرورت و تناسب اضافہ ہوا ہے۔

 

علاوہ ازیں بنیادی بات شفافیت کی بھی ہے کہ ماضی میں بھی سینکڑوں ارب روپے کراچی میں مبینہ طور پر خرچ کئے گئے ہیں لیکن اُن کا نام و نشان دکھائی نہیں دیتا اور اگر موجودہ حکومت بھی گیارہ سو ارب روپے خرچ کرنے کے عمل کو شفاف نہیں رکھتی اور وہ عمومی بدعنوانی کو زندگی کے ہر شعبے کا احاطہ کئے ہوئے ہے‘ اِس مرتبہ بھی ہاتھ کر جاتی ہے تو اندیشہ ہے کہ کراچی کے مسائل جوں کے توں برقرار رہیں گے اور گیارہ سو ارب تو کیا گیارہ ہزار ارب روپے بھی مختص کئے جائیں لیکن اِس سے کراچی کا مستقبل تبدیل نہیں ہوگا۔ سیاسی جماعتیں ملک کے دیگر حصوں کی طرح کراچی کی فیصلہ سازی پر بھی براجمان ہیں جبکہ شہری ترقی اور ترقیاتی منصوبے خالصتاً تکنیکی مسئلہ ہے اور چونکہ خرابی کا علم بھی ہے تو سیاسی کرداروں کی مداخلت کے بغیر کراچی کی ترقیاتی حکمت عملی وضع کرنی چاہئے تھی جبکہ وزیراعظم نے دورہ کراچی کے موقع پر جن افراد کے ہمراہ گیارہ سو ارب روپے مالیت کے ترقیاتی پیکیج کی نوید سنائی وہ سب کے سب کسی نہ کسی صورت کراچی کی موجودہ حالت کے لئے ذمہ دار ہیں۔کراچی مسائل کی آماجگاہ بن چکا ہے۔

 

یہاں ہر مسئلے کی شدت دوسرے سے زیادہ ہے اور ہر شعبے پر مافیاز چھائے ہوئے ہیں جو نہیں چاہتے کہ کراچی کے مسائل حل ہوں۔ جیسا کہ پبلک ٹرانسپورٹ اور پینے کے صاف پانی کی قلت۔ اِن دونوں مسائل سے نجی شعبے کے مفادات وابستہ ہیں جو ماہانہ اربوں روپے کما رہے ہیں اُور یہی وجہ ہے کہ وہ کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ اور پانی کی حسب آبادی فراہمی کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں تاکہ اُن کے اپنے کاروبار چلتے رہیں۔ یہ دھندا اِس قدر گہرا اور گھمبیر ہے کہ قانون ساز اداروں میں بیٹھے عوام کے منتخب نمائندے بھی اپنے انتخابی مفادات کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ اور پانی فراہم کرنے والے مافیا کے خلاف اقدامات نہیں کرتا۔ اصولاً قانون ساز ایوانوں کے اراکین اور سیاسی جماعتوں کا کام قوانین کو بہتر سے بہتر بنانا اور سرکاری اداروں کی کارکردگی پر نظر رکھنا ہے تاکہ عوام کو درپیش مسائل حل ہوتے چلے جائیں اور قوانین میں موجود سقم دور ہوں لیکن پاکستان میں صورتحال برعکس ہے

 

کہ جن کرداروں کو قانون سازی پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے وہ ترقیاتی کاموں کے بارے میں سوچتے ہیں اور اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ ترقیاتی کاموں میں اُن کے انتخابی حلقے کو زیادہ سے زیادہ مالی وسائل ملیں۔ یہ مختص مالی وسائل اُن کی مرضی سے خرچ ہوتے ہیں اور جن ٹھیکیداروں کو یہ کام دیئے جاتے ہیں وہ اراکین اسمبلی کو طے شدہ خاص تناسب سے (فنانشل کک بیکس) ادائیگیاں کرتے ہیں اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اور نہ ہی اِن سیاسی فیصلہ سازوں کی مالی حالت کسی سے پوشیدہ ہے وفاق کی جانب سے گیارہ سو ارب روپے کا اعلان اور ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد کےلئے کمیٹی کا قیام خوش آئند ہے لیکن مذکورہ پروانشل کورآرڈینیشن ایمپلی منٹیشن کمیٹی کی سربراہی وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو سونپی گئی ہے

 

جو اگر کراچی کی ترقی کو ضروری سمجھتے اور اُنہیں احساس ہوتا تو یہ نوبت ہی نہ آتی۔ بھلا جو شخص سینکڑوں ارب روپے خرچ کرنے کے باوجود بھی کراچی کے مسائل کا حل ثابت نہ ہو رہا ہو تو اُس سے کس طرح توقع کی جا سکتی ہے کہ زیادہ بڑی رقم خرچ کرکے کراچی کی ترقی کو عملاً ممکن بنائے گا۔ یہ بات تو خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے کہ جو کردار کراچی کی تباہی و بربادی کے لئے ذمہ دار ہیں وفاقی حکومت نے بھی اُنہی کو ترقیاتی حکمت عملی کی نگرانی اور سربراہی سونپ دی ہے‘ جس کی وجہ سے اندیشہ پیدا ہو گیا ہے کہ وفاقی حکومت کی پرخلوص کوششوں کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔کراچی میں ترقیاتی کاموں سے متعلق دستاویزات خفیہ نہیں رکھنی چاہئیں تاکہ کراچی کے عوام کو علم اور یقین ہو سکے کہ اگر کسی منصوبے پر کام جاری ہے تو اُس کا معیار اور رفتار کے علاوہ اخراجات کا تخمینہ کیا ہے۔ لمحہ فکریہ ہے ترقیاتی کاموں سے متعلق دستاویزات غیرضروری طور پر خفیہ رکھی جاتی ہیں اور اِس رازداری کے باعث بدعنوانی کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ کراچی ہو یا ملک کا کوئی بھی دوسرا شہر‘ ترقیاتی حکمت عملیاں وضع کرتے ہوئے اُن پر عمل درآمد کے دوران شفافیت غالب ہونی چاہئے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: منزہ صدیقی۔ ترجمہ: ابوالحسن اِمام)