سوچ حاوی ہونی چاہئے۔ بحث و مباحثہ اور غوروخوض کے مراحل اُن سبھی امور میں ضروری ہیں جن کا تعلق قومی یا صوبائی ترقیاتی حکمت عملیوں سے ہے۔ جب کراچی بارش کے پانی میں ڈوب گیا اور عوام اپنی مدد آپ کے تحت پانی نکالتے ہوئے بے بس دکھائی دیئے تو اُمید تھی کہ اِس صورتحال سے فیصلہ ساز سبق سیکھیں گے لیکن پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ماضی کی غلطیوں کو غلطی تو سمجھا جاتا ہے لیکن اُن سے حاصل ہونے والے اسباق کو پیش نظر نہیں رکھا جاتا۔ یہ الگ بات ہے کہ غلطیوں سے سبق سیکھنے میں صرف تاخیر نہیں بلکہ بہت دیر ہو چکی ہے! کراچی کو جس طرح کی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے اُسے کرنے میں کوتاہی سے زیادہ نااہلی کا عمل دخل نظرآتا ہے۔
صرف حال ہی نہیں بلکہ فیصلہ سازوں کو ماضی میں ہوئی بارشوں کی وجہ سے ہونے والی تباہ کاریاں بھی مدنظر رکھنا پڑیں گی۔ حالیہ بارشیں نسبتاً زیادہ تھیں‘ انہونی بات نہیں بلکہ دنیا کے کئی چھوٹے بڑے شہر موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث اِسی قسم کے حالات سے گزر رہے ہیں اور یہ حالات کسی بھی حکومت کے لئے قابل قبول نہیں ہونا چاہئیں‘ چاہے وہ صوبائی حکومت ہو یا وفاقی حکومت جس نے مدد کرنی ہے اُسے سامنے آنا چاہئے۔ سیاسی رہنما بارش اور سیلاب کے موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی تصاویر بنوا رہے ہیں اور کسی ایک نہیں بلکہ سبھی سیاسی جماعتوں کا یہی حال ہے کہ وہ مصیبت زدہ شہریوں کے اُترے ہوئے اور اپنے ہشاش بشاش چہروں کی نمائش کریں۔ اصل ضرورت تو ایسی دردمند قیادت کی ہے جو نمائش سے زیادہ تعمیر پر توجہ دے اور عوام کو اخبارات کے ذریعے نہیں بلکہ ترقی کا علم اپنے گردوپیش کو دیکھتے ہوئے دکھائی دے۔
کراچی میں کئی روز تک بجلی بند رہی۔ سڑکیں ڈوبی رہیں لیکن ایسے وزیر بھی تھے جنہوں نے خشک سڑکوں پر مٹرگشت کرتے ہوئے یہ تاثر دیا کہ کراچی کے بارے میں جاری ہونے والی خبروں میں صداقت نہیں۔ کیا اِس قسم کا تاثر دینے سے اُن لوگوں کی پریشانی کم ہوگی جن کی رہائش گاہیں اور کاروبار متاثر ہوئے ہیں اور لاکھوں کا نقصان الگ سے ہوا ہے؟ سیاسی رہنماو¿ں کو دردمندی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ کراچی کی صورتحال اِس قدر خراب ہے کہ اِس میں وزیراعظم اور فوج جیسے ادارے کو مداخلت کرنا پڑی اور اگر یہ مداخلت نہ کی جاتی تو بحران سے نکلنے کی کوئی دوسری صورت بھی واضح نہیں تھی لیکن کراچی میں وفاقی اور صوبائی وزرا کی مصروفیات سے زیادہ کراچی کو طویل المیعاد منصوبہ بندی کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ایسے اور اِس سے شدید بحرانوں سے یہ شہر نمٹ سکے۔
حالیہ بارشوں کے بعد یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ وفاق اور صوبے کے حکومتی اداروں کے درمیان رابطہ کاری کم ترین سطح پر ہے اور کئی ادارے ایک جیسا کام کرنے پر وسائل ضائع کر رہے ہیں کیونکہ رابطوں اور کثیرالجہتی منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ اب جو بھی ہونا چاہئے وہ منصوبہ بندی کے تحت ہو اور کراچی کے لئے سب کو اپنے ذاتی و کاروباری اور سیاسی مفادات کو پس پشت ڈالنا ہوگا۔ اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ کراچی پاکستان کو محصولات کی صورت سب سے زیادہ ادائیگیاں کرتا ہے اور اگر کراچی کو درست رکھا گیا تو اِس سے پاکستان کی معیشت و اقتصادیات کا پہیہ بھی چلتا رہے گا۔ کراچی کی موجودہ حالت کے لئے ذمہ دار صرف اور صرف سندھ حکومت پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ ہے۔ عوام سے ووٹ حاصل کرنے اور خدمت کے جذبے سے بظاہر سرشار سیاسی رہنماو¿ں کی ترجیحات ظاہراً اور پوشیدہ الگ الگ ہیں لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ فیصلہ کرنے کے لئے پہلے سے منصوبہ بندی کی جائے جو اتنا مشکل نہیں جس قدر دکھائی دیتا ہے۔
یہاں تک کہ اگر محکمہ موسمیات کی کسی خاص وجوہ کی بنا پر سندھ میں کسی وزارت یا دیگر حکام کے ساتھ ہم آہنگی نہیں تو سندھ حکومت اِس رابطہ کاری کو ممکن اور مربوط بنا سکتی ہے لیکن اگر اِسے ضروری سمجھا جائے۔ موسم کے بارے میں معلومات بہت اہم ہوتی ہیں اور یہ معلومات بروقت مل جائیں تو امدادی اداروں سمیت نشیبی علاقوں میں رہنے والوں کو خبردار کیا جا سکتا ہے کہ وہ اُنہیں آئندہ چند روز میں کس قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اِس قسم کا فعال نظام ایک صدی پہلے ہوا کرتا تھا اور اصولاً تو یہ ہونا چاہئے تھا کہ وقت کے ساتھ سرکاری اداروں کے آپسی روابط میں اضافہ ہوتا کیونکہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے زمانے یہ سب کچھ آن کی آن ممکن ہے۔
عجیب بات یہ بھی ہے کہ سرکاری اداروں کے درمیان رابطہ کاری آج بھی خط و کتابت کے ذریعے ہوتی ہے اور یہ انتہائی پرانا طریقہ ہے جبکہ واٹس ایپ‘میسنجر اور ویب سائٹس محکموں کے درمیان رابطہ کاری کا مو¿ثر و فوری ذریعہ ہو سکتے ہیں اور انہی کے ذریعے عوام اور ذرائع ابلاغ بھی خود کو باخبر رکھ سکتے ہیں۔ آج کا موسمیاتی پیشنگوئی کا نظام خلائی سیارے حاصل ہونے والی تصاویر پر منحصر ہوتا ہے اِس کے علاوہ پاکستان کے ہمسایہ ممالک کی موسمیاتی صورتحال پر بھی نظر رکھی جاتی ہیں اور ہونے والی موسیماتی تبدیلیوں اور اُن سے نمٹنے کے لئے اختیار کی جانےو الی حکمت عملیوں کو بغور دیکھا جا سکتا ہے۔
حالیہ بارشیں کراچی پہنچنے سے پہلے بھارت اور بنگلہ دیش کے کئی ساحلی شہروں سے ٹکرائیں اور اگر وہاں کے حالات مدنظر رکھے جاتے تو ہفتہ دس دن میں ہنگامی بنیادوں پر انتظامات کئے جا سکتے تھے۔ کراچی میں نکاسی¿ آب کے نالے نالیوں پر تجاوزات قائم ہیں اور برسات کا پانی سڑکوں کے بیچوں بیچ سے گزرتا ہے۔ اِس قسم کی نکاس آب کسی بھی طرح کارآمد اور مسئلے کا حل نہیں ہوتی۔ بہرحال بنیادی سوال اور نکتہ یہ ہونا چاہئے کہ اِس حالت تک پہنچنے کے بعد کیا کراچی کو بچایا جاسکتا ہے؟ اگر سیاسی مخالفت برائے مخالفت نہ کی جائے اور کراچی کو محاذ جنگ نہ سمجھا جائے تو مسائل کا حل ممکن ہے اور یہ حل بنا مو¿ثر و فعال بلدیاتی حکومت پائیدار نہیں ہوگا۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: کمالیہ حیات۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)