خواتین کے حقوق اور اُن کے لئے تحفظ کی خاطرخواہ فراہمی ہونی چاہئے۔ ایک مرد کی حیثیت سے صورتحال کا جائزہ لینے پر عورت کی بے بسی عیاں ہوتی ہے۔ رواں ہفتے لاہور کے قریب موٹر وے شاہراہ پر ایک خاتون کی اُس کے بچوں کے سامنے عصمت دری کی گئی لیکن یہ ایسا پہلا واقعہ (سانحہ) نہیں اور یہی وجہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے خاطرخواہ تشویش کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ بس جس گھر پر گزری ہے صرف وہی پریشان اور مشتعل ہیں اور ایک صدمے سے گزر رہے ہیں!خواتین کے خلاف جرائم کا تعلق معاشرتی اور سماجی سطح پر پائی جانے والی عمومی بے حسی سے بھی ہے۔ جب خواتین اپنے حقوق کے لئے احتجاج کرتی ہیں تب بھی معاشرہ اُن کے اِس حق کو تسلیم نہیں کرتا ۔
جب کوئی معاشرہ خواتین کو تحفظ بھی نہ دے اور خواتین خود بھی اپنے لئے تحفظ اور حقوق نہ مانگیں تو کیا ہم یہ چاہتے ہیں کہ خواتین کے خلاف جرائم کا سلسلہ جاری و ساری رہنا چاہئے؟ خواتین کو حفاظت بھی چاہئے اور اُنہیں تحفظ کے احساس کے ساتھ اِس بات کا احساس بھی کہ وہ معاشرے میں برابری کی بنیاد پر حصہ داری رکھتی ہیں۔ آئین کا آرٹیکل 14 اِس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ ریاست ہر شہری کے وقار کی محافظ ہو۔ کسی بھی شخص کا حق دوسرے کی حق تلفی نہیں ہوسکتا اور اِسی طرح حکومت بھی کسی کی حق تلفی نہیں کرسکتی کیونکہ یہ ایک آئینی ذمہ داری ہے۔ موٹر وے پر عصمت دری کا واقعہ اور ایسے ہزاروں منتشر واقعات ہمارے اردگرد پھیلے ہیں لیکن اُن کی جانب خاطرخواہ دھیان نہیں دیا جاتا جو ہماری ریاست کے بدنما چہرے کی عکاسی ہیں۔
اِس سلسلے میں لاہور پولیس کے سربراہ ’سی سی پی او‘ کا اظہار خیال بھی لائق توجہ ہے جنہوں جرم کا نشانہ بننے والی خاتون سے متعلق سوالات اُٹھا کر ثابت کیا کہ پولیس سے خیر کی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔ بھلا پولیس فورس کے اہلکارکسی جرم کی گھتیاں سلجھانے میں کتنی دلچسپی لیں گے جبکہ اُن کے سربراہ اِس جرم کو نشانہ بننے والی خاتون ہی کی ذمہ دار سمجھ رہے ہوں۔ عوام کو اپنے طور پر جرائم کا شکار ہونے سے بچنے کے لئے جہاں احتیاطی تدابیر کی ضرورت ہے‘ وہیں ریاست کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کے حقوق کی ضامن رہے اور اُنہیں اِس بات کا احساس دلائے کہ ریاست محافظ ہے۔
حکومت کو پولیس کے کردار پر نظرثانی کرنی چاہئے کہ اگر پولیس مستعد نہیں ہوگی اور پولیس حساس نہیں ہوگی تو اِس سے بالخصوص خواتین کے خلاف جرائم کی حوصلہ شکنی کس طرح ہوگی۔موٹر وے عصمت دری کے بعد وزرا ءاور پولیس عہدیداروں کے بیانات کا سلسلہ افسوسناک ہے۔ نجی آزادی اور عوامی ذمہ داری کی لازمی نوعیت کے درمیان فرق کھو گیا تھا۔ حفاظت کا انتظام و ذمہ داری پولیس کاکام ہے لیکن اگر مقامی حکومتوں کے قیام کےلئے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیا جائے تو اِس کے ذریعے بھی معاشرے سے جرائم کو کم کیا جا سکتا ہے اور بلدیاتی نمائندے عوام کے قریب و درمیان رہتے ہیں‘ جنہیں فیصلہ سازی میں تبدیلیوں اور اصلاحات کرنے میں زیادہ آسانی رہتی ہے۔
’سی سی پی او لاہور‘ کے اََلفاظ اور طرز عمل سے ناگوار تاثر اُبھر اور شہریوں کا غم و غصہ بڑھاہے لاہور سانحے کے بارے میں سی سی پی او لاہور اور وفاقی وزیر شریں مزاری کے بیانات ایک دوسرے سے مختلف تھے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ ایک خاتون ہی دوسری خاتون کے دکھ کو سمجھ سکتی ہے یا سمجھنے کی کوشش کرتی ہے جو اِس سانحے کی صورت میں ثابت ہوا ہے کہ مرد خواتین کے ساتھ ہوئے جرائم کی سنگینی کو نہیں سمجھ پا رہے۔ اگر سی سی پی او لاہور خاتون ہوتی تو کیا وہ اِنہی الفاظ میں جرم اور سانحے کا نشانہ بننے والی خاتون کے خلاف بیان دیتی؟ اگر عصمت دری کے معاملات میں پولیس کے تفتیش کار خواتین ہوں تو وہ متاثرین کو زیادہ پریشان نہیںکریں گی اور سمجھیں گی یہ ایک حساس معاملہ ہے کہ جو خاتون جسمانی طور پر تشددکا شکار ہوئی ہے اُس پر نفسیاتی طورپر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ پاکستان میں انصاف کا نظام ٹوٹ چکا ہے۔ قانون کمزوروں کے حق میں مفید نہیں۔ اِس پر طاقتوروںکا غلبہ ہے اور جب تک یہ امتیاز ختم نہیں ہوتا اُس وقت تک خواتین کے خلاف جرائم کا سلسلہ جاری رہے گا۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: بابر ستار۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)