پاکستان میں زندگی بسر کرنے کا مطلب قوت برداشت کا مظاہرہ ہے کہ یہاں زندگی غم اور درد سے تعبیر ہے۔ اِس حقیقت کا افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ درد و غم آپ کو بار بار برداشت کرنا پڑتا ہے‘ جس کی وجہ سے آپ کا ذہنی سکون منتشر ہو جاتا ہے اور آپ اگرچہ اِس کا براہ راست شکار نہ بھی ہوں لیکن اپنے گردوپش میں ہونے والے واقعات کو دیکھتے ہوئے آپ کے لئے معمول کے مطابق مطمئن زندگی بسر کرنا ممکن نہیں ہوتی۔ رواں ہفتے بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا ہے جس میں ایک مسافر خاتون کی بے بسی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا جبکہ اُس کے بچے بھی یہ سب مناظر دیکھ رہے تھے کہ اُن کی والدہ کے ساتھ زبردستی کی گئی۔ اُس خاندان اور اُن بچوں پر کیا گزر رہی ہو گی‘ اِس بارے میں بہت کم بات کی جاتی ہے لیکن اِس واردات پر اپنی پسند کے حصے اور اپنی مرضی کے تبصرے کئے جا رہے ہیں۔
حقیقت حال یہ ہے کہ مذکورہ واردات کے بارے میں جس قدر بھی سوچا جائے اور اِس کے جس قدر پہلوو¿ں کے بارے میں بھی غور کیا جائے دل اُسی قدر اُداس ہو جاتا ہے کیونکہ پاکستان یقینا ایسے ماحول کے لئے نہیں بنا تھا جہاں جرائم کا ارتکاب کرنے والے کسی خوف میں مبتلا نہ ہوں۔ لاقانونیت اُس وقت پھیلتی ہے جب ہر خاص و عام کے سامنے ایسی مثالیں موجود ہوتی ہیں جن میں قانون خاطرخواہ مو¿ثر انداز میں لاگو نہیں ہورہا ہوتا۔ کیا ہمارے سیاسی فیصلہ ساز اِیسی بہت ساری وارداتوں سے یہ سبق سیکھیں گے کہ اب جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو اگر کسی ایک چیز کا خوف محسوس نہیں ہوتا تو وہ قانون ہے؟لاہور کے قریب عام شاہراہ پر پیش آنے والے واقعات اپنی نوعیت کے منفرد ہیں جو کسی خوفناک فلمی کہانی کی طرح ہیں۔
ایک عورت لاہور سے گوجرانوالہ اپنے تین بچوں کے ساتھ منگل اور بدھ کی رات گھر سے نکلتی ہے۔ راستے میں اُس کی گاڑی کا ایندھن ختم ہونے پر رکنا پڑتا ہے اور کہیں سے دو افراد نکل آتے ہیں جو اُس کی گاڑی کا شیشہ توڑ کر اُسے کھینچ نکالتے ہیں۔ قیمتی اشیاءلوٹتے ہوئے اُس پر تشددکرتے ہوئے رفوچکر ہو جاتے ہیں۔ اس پوری کہانی میں پولیس اُس وقت تک حرکت میں نہیں آتی جب تک کہ ملک بھر سے شدید ردعمل سامنے نہیں آتا اور ہر طبقے کی جانب سے اِس کی مذمت نہیں کی جاتی۔ اِس سلسلے میں لاہور پولیس کے نگران (سی سی پی اُو) کا بیان جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کرتا ہے جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ایک خاتون کو تنہا سفر کرنے کی کیا ضرورت تھی اور اُنہیں گاڑی کا ایندھن گھر سے نکلنے پر دیکھنا چاہئے تھا وغیرہ۔ پولیس سربراہ کے اِس رویئے کی الگ سے مذمت ہوتی ہے
لیکن درحقیقت یہ وہی پولیس اہلکار ہیں جنہیں اہلیت کے برخلاف ایک اہم عہدے پر تعینات کیا گیا اور اُنہوں نے ایک حساس مسئلے سے متعلق اپنے غیرحساس بیان سے ثابت کر دیا کہ اُن کا انتخاب کرنے والوں نے کتنی بڑی غلطی کی ہے۔ کیا کسی پولیس سربراہ کو اِس قسم کا بیان دینا چاہئے تھا جس پر حکومت نے اُس سے سات روز کے اندر جواب طلب کر رکھا ہے لیکن محض یہ مقام شوکاز نوٹس دینا نہیں تھا بلکہ فی الفور اُنہیں عہدے سے ہٹا دینا چاہئے تھا اور اُنہیں آئندہ کسی بھی ایسے بڑے انتظامی عہدے پر تعینات نہ کرنے کا بھی حکم دینا چاہئے تھا۔ ایک ایسا شخص کس طرح پولیس فورس کی سربراہی کر سکتا ہے جس کے نزدیک جرائم کا شکار ہونے والے ہی مجرم ہیں!پاکستان تحریک انصاف ’نیا پاکستان‘ تخلیق کرنا چاہتی تھی لیکن ایسا دکھائی دے رہاہے کہ وہ ’پرانے پاکستان‘ ہی کے ساتھ اپنی آئینی مدت پوری کریں گے۔
کراچی میں بارشیں اگر قدرتی آفت ہیں تو لاہور میں ہونا والا جرم تو قدرتی آفت نہیں کہ اِس کا سدباب نہ کیا جا سکے۔ عوام کے دکھوں کا مداواکرنے والوں کو سب سے پہلے عوام کی رائے اور اُس دکھ کو سمجھنا ہوگا جو اُن کی بے بسی سے متعلق ہے۔ عوام خود کو لاچار سمجھ رہے ہیں۔ چینی آٹے اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کنٹرول کرنا کسی کے بس میں نہیں رہا۔ مہنگائی ہر دن بڑھ رہی ہے ۔ ایسی صورت میں حکمرانی تو جاری رہے گی لیکن اِس کی کوئی تاریخی حیثیت و اہمیت باقی نہیں رہے گی۔ وزیراعظم عمران خان کو تاریخ میں زندہ رہنے کے لئے باقی ماندہ آئینی مدت کے لئے ازسرنو حکمت عملی بنانا ہوگی۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: غازی صلاح الدین۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)