وفاقی وزیرتعلیم اور پیشہ ور تربیت: اُمید ہے آپ بخیریت ہوں گے۔ آٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت جو وفاقی وزارتیں صوبوں کے حوالے کی گئیں اُن میں تعلیم بھی شامل تھی اور صرف تعلیم ہی نہیں بلکہ نصاب مرتب کرنے کی ذمہ داری بھی صوبوں کو دیدی گئی ہے۔ وفاق کو مضبوط کرنے کے لئے یہ ایک دیرینہ مطالبہ تھا کہ صوبوں کو زیادہ بااختیار بنایا جاتا اور یہی وجہ رہی ہے کہ دیگر وزارتوں کے ساتھ تعلیم جیسی اہم وزارت کی بھی صوبائی حکومت نگران بن گئی اور اگر وفاق اٹھارہویں ترمیم کے حسن اور اِس کی روح کو برقرار رکھتا ہے تو اِس سے صوبوں اور وفاق کے درمیان تعلقات مثالی رہیں گے۔ناقابل فہم ہے کہ صوبائی وزارتوں کی موجودگی میں وفاقی وزارت تعلیم کی ضرورت کیا ہے۔ وفاقی حکومت نے چند تعلیمی اداروں کی دیکھ بھال کرنے کے لئے جو براہ راست وفاقی دائرہ کار میں آتے ہیں ایک وزارت قائم کر رکھی ہے اور بار بار اِس وزارت کا نام تبدیل کرکے اِس کا جواز قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے
اور حالیہ اضافہ وزارت تعلیم کے ساتھ ”پیشہ ورانہ تربیت“ کا ہے‘ جس نے اِس وزارت کو زیادہ وسیع کر دیا ہے لہٰذا حسب آئین و ضرورت مذکورہ وزارت کو پیشہ ورانہ تربیت فراہم کرنے والے اداروں کی بہتری پر توجہ دینی چاہئے جو وفاقی حکومت کے براہ راست زیرانتظام ہیں اور وفاقی حکومت ہی پیشہ ورانہ تربیت کے منصوبے بناتی اور اِن پر عمل درآمد کرتی ہے۔پاکستان میں اِس وقت ایک ایسے متفقہ قومی نصاب کی ضرورت کے حوالے سے بحث ہو رہی ہے جو یکساں ہو اور مختلف قسم کے نصاب ختم ہونے چا ہئیں۔ یہ ایک اچھی بحث اور موضوع ہے کیونکہ اِس بحث نے تعلیم کے بارے میں سوچنے اور ایک دوسرے کے مو¿قف سے آگاہ ہونے کا موقع بھی فراہم کیا ہے۔ اب تک جو مو¿قف سامنے آئے ہیں اُن میں تجزیہ کاروں نے یکساں نصاب تعلیم کے تجربے کو منفی قرار دیا ہے۔
بنیادی بات یہ ہے کہ یکساں نصاب تعلیم بنانا بھی وفاقی وزارت کی ذمہ داری نہیں اِس لئے وفاقی وزارت کو اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے۔ اس سلسلے میں ماہرین تعلیم کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے وفاقی وزارت کی آئینی ذمہ داری کو اجاگر کریں۔ یادش بخیر مادری زبان کے حوالے سے وزارت تعلیم کی جانب سے کانفرنس طلب کی گئی جس میں اِس بات پر اتفاق رائے پایا گیا کہ صوبوں کا یہ آئینی اختیار موجود ہے کہ وہ اردو کو ذریعہ تعلیم یا کسی دوسری مادری زبان کے طور پر منتخب کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وفاقی وزارت کو اِس نتیجے تک پہنچنے کے لئے کسی کانفرنس کو طلب کرنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی جبکہ یہ بات تو اٹھارہویں آئینی ترامیم کی صورت پہلے ہی طے پا چکی ہے۔
وفاقی حکومت چاہتی ہے کہ یکساں نصاب تعلیم کے لئے درسی کتب وہ تشکیل دے لیکن اگر وہ ایسا کرے گی تو یہ غیرآئینی اقدام ہوگا کیونکہ آئینی طور پر نصاب کی تشکیل صوبوں کا اختیار ہے۔ سردست وفاق اور صوبوں کی جانب سے نجی تعلیمی اداروں پر اِس قسم کی کوئی پابندی عائد نہیں کہ وہ اگر چاہیں تو نجی اداروں کی تدریسی کتب شامل نصاب کر لیں اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ایک دو نہیں بلکہ درجنوں قسم کے نصاب تعلیم رائج دکھائی دیتے ہیں اور حکومت کے ہر ایک کے معیار اور کارکردگی پر نظر رکھنا ممکن نہیں۔ جب یکساں نصاب تعلیم ہو گا تو اُس کا ایک فائدہ یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ متعلقہ حکومتی اداروں کے لئے اُن کی نگرانی کا عمل آسان ہوگا۔ آئینی طور پر بات کریں تو وفاق کو صوبوں کے تعلیمی فیصلہ میں دخل دینے کا اختیار نہیں لیکن نظریاتی اور اصولی ضرورت کو مدنظر رکھیں تو یکساں نصاب تعلیم ہونا چاہئے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ صوبوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سرکاری تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم ہر بچے کو درسی کتب فراہم کرے ۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ آئینی طور پر وفاقی وزارت تعلیم نجی تعلیمی اداروں کو نصاب کی اضافی کتب پڑھانے سے نہیں روک سکتی ہے اور یہ ہر سکول کا اپنا حق ہے کہ وہ جو کتاب چاہے اپنے ہاں تدریسی نصاب میں شامل کر لے۔ اعلیٰ و معیاری تعلیمی ادارے وہی ہیں جہاں بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے صرف مقررہ کتب پر ہی انحصار نہیں کیا جاتا۔ ٹیکنالوجی کے زمانے میں اِس بات کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے کہ بچوں کو نصاب تعلیم کی حد تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اُنہیں زیادہ سے زیادہ تعلیم اور زیادہ سے زیادہ مضامین سے روشناس کرایا جائے۔ تعلیم کا مقصد بچوں کی سوچ اور عمل کو محدود کرنا نہیں بلکہ اُنہیں نئی وسعتوں سے روشناس کرانا ہے اور اگر وفاقی اور صوبائی سطح پر اِس مقصد کو پیش نظر رکھا جائے تو اِس کے زیادہ بہتر و مفید نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر نذیر محمود۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)