وفاقی وزیر تعلیم ملک میں یکساں نصاب تعلیم رائج دیکھنا چاہتے ہیں اور اِس سلسلے میں وہ حکومت کی سوچ کو عوام کے سامنے کھول کھول کر بیان کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف اور ماضی کے حکمرانوں میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ ماضی میں حکومتی فیصلہ سازی کو صیغہ¿ راز میں رکھا جاتا تھا اور عوام کو کسی معاملے کی کانوں کان خبر نہیں ہونے دی جاتی تھی۔ ذرائع ابلاغ ایک آدھ خبر ڈھونڈ بھی لاتے تو اُس پر زیادہ بحث نہیں ہوتی تھی اور اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نصاب تعلیم سمیت ہر حکومتی شعبے کے قواعد و ضوابط پراسرار انداز میں مرتب ہوئے اور اُن کا زمینی حقائق سے تعلق نہیں۔ عوام کے نکتہ¿ نظر سے ضروری ہے کہ ہر حکومتی فیصلے سے متعلق شعور اُجاگر کیا جائے اور اُس سے متعلق ہر سطح پر بحث ہونی چاہئے۔ یہی جمہوریت کا حسن اور جمہوری معاشروں کی روش ہوتی ہے کہ اِن میں عوام سے متعلق قانون و قواعد سازی کرتے ہوئے اُن کی رائے اور تحفظات کو بھی یکساں اہمیت دی جاتی ہے۔ یکساں نصاب تعلیم نافذ کرنے کےلئے حکومت نے جتنے فیصلے یا اقدامات کئے ہیں اُن کی تفصیلات موجود نہیں۔
یہ امر بھی باعث تشویش ہے کہ حکومت جس اتفاق رائے کی بات کرتی ہے کہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں یکساں نصاب تعلیم رائج کرنے کے لئے اتفاق رائے پایا جاتا ہے تو معلوم نہیں ہوتا کہ یہ اتفاق رائے حکومت تک کیسے پہنچا اور کیا اِسے جاننے کےلئے باقاعدہ تحقیق کی گئی ہے؟ قومی اتفاق رائے جاننے کا ایک طریقہ تو ریفرنڈم ہے اور دوسرا بحث و مباحثے کی نشستیں۔ اِن میں ذرائع ابلاغ کا کردار کلیدی ہو جاتا ہے لیکن اِیسی گہماگہمی دیکھنے میں نہیں آئی اور بتایا گیا ہے کہ قومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے تو ایسا اتفاق رائے اتفاقی تو ہو سکتا ہے لیکن حقیقی نہیں۔ حکومت نام نہاد مباحثے کی بنیاد پر تبدیلیاں چاہتی ہے لیکن تعلیم ایک ایسا معاملہ ہے کہ اگر اِس میں یک طرفہ فیصلے کئے گئے تو اُن کے نتائج زیادہ نقصاندہ برآمد ہوں گے لہٰذا یہ ابتدائی طور پر جو یکساں نصابی کتب کا معاہدہ کیا گیا ہے اُس میں جلدبازی کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہئے۔ حکومت کہتی ہے کہ باریک بینی سے کام لیا جا رہا ہے اور یکساں قومی نصاب تعلیم مرتب کرتے ہوئے بین الاقوامی نصاب کو بھی مدنظر رکھا گیا جبکہ اِس سلسلے میں کیمبرج سے بھی رائے لی گئی ہے۔
اِس سلسلے میں حکومت کی مدد کچھ چند بڑے تعلیمی ادارے اور تجربہ کار افراد بھی کر رہے ہیں لیکن وہ یہ انکشاف کرنے کے لئے تیار نہیں ہے کہ وہ کونسا بین الاقوامی نصاب ہے جس کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کے لئے یکساں اور قومی نصاب کی تشکیل ہو رہی ہے۔ یہ اَمر تشویشناک ہے کہ اگر حکومت مغربی نصاب کو مدنظر رکھ بھی رہی ہے تو اُس کی تفصیلات کا اجرا ہونا چاہئے اور یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ نصاب مرتب کرنے کی ذمہ داری جن افراد کو سونپی گئی ہے وہ کون ہیں۔ اہم بات حکومت کی سوچ ہے جس میں تحقیق کا پیمانہ عالمی نصاب ہے اور اگر بغور دیکھا جائے تو یہی عالمی نصاب پاکستان کا بڑا مسئلہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو جو نظمیں اور گیت یاد کرواتے ہیں اُن کا پاکستانی معاشرے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بچوں کو قومی ترانہ آئے یا نہ آئے لیکن انگریزی کی نظمیں زبانی یاد ہوتی ہیں جنہیں بچوں کے منہ سے سن کر والدین فخر کرتے ہیں لیکن یہ مقام فخر نہیں بلکہ فکر ہے اور اگر ہمیں کسی نصاب تعلیم کی ضرورت ہے بھی تو ایک ایسے نصاب کی ہے جس میں معاشرے کے اندر پائے جانے والے تنازعات کم ہوں۔ تفریق اور افراتفری کا خاتمہ ہو اور صرف تعلیم نہیں بلکہ خواندگی میں اضافہ ہو۔ نئے نصاب تعلیم کو مرتب کرنا تعجب خیز نہیں کیونکہ یہ عمل ہر ملک میں سرانجام دیا جاتا ہے اور جن ممالک کے نصاب کو پاکستان سامنے رکھتے ہوئے اپنا قومی نصاب مرتب کر رہا ہے وہ بھی تبدیلیاں کرتے رہتے ہیں۔
بہرحال فرانس‘ برطانیہ اور یورپ کے بیشتر ممالک بشمول چین و جاپان وغیرہ میں قومی نصاب موجود ہے اور وہاں نصاب مرتب کرتے ہوئے کسی ملک کے تجربات اور کتب کو سامنے نہیں رکھا گیا بلکہ اپنی ضرورت اور اپنے قومی نظریات کےلئے نصاب بنایا گیا ہے۔ اگر ہم چین کی مثال لیں تو وہاں نہایت ہی سوچے سمجھے نصاب تعلیم کے باوجود حکومت اقلیتوں کی سوچ تبدیل نہیں کر سکی اور اُسے ایسے تربیتی مراکز بنانا پڑے جہاں لوگوں کو رکھ کر اُن کی نفسیاتی تربیت کی جا سکے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نصاب تعلیم کی تبدیلی سے ایک نیا پاکستان تشکیل پا سکتا ہے اور اصلاح کی صرف یہی ایک صورت باقی ہے تو وہ درحقیقت اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں اور قوم کو بھی ایک جھوٹی اُمید دلا رہے ہیں کہ جیسے ساری خرابیوں کی جڑ نصاب تعلیم ہو۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: انجم الطاف۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)