امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سوشل میڈیا اور عمومی بول چال میں محتاط نہیں اور یہی وجہ ہے کہ اُن کے اکثر بیانات پر کوئی نہ کوئی طبقہ اپنے تحفظات کا اظہار کرتا ہے یا انفرادی طور پر لوگوں کی دل شکنی ہوتی ہے۔ اِس طرزعمل کی وجہ سے وہ کئی مرتبہ مشکلات کا بھی دوچار ہوئے ہیں لیکن اپنے قول و فعل کی اصلاح شاید اب اُن کے لئے ممکن نہیں رہی اور یہ بات اُن کی عادات میں شامل ہو چکی ہے کہ وہ دوسروں کی عزت نفس یا جذبات کا خیال کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔ امریکی معاشرے کے بارے میں پہلے ہی اِس قسم کا تصور پایا جاتا تھا کہ اس میں کسی کا لحاظ پاس نہیں رکھا جاتا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے اِس تصور کو زیادہ بلندی پر پہنچایا ہے جبکہ ماضی کے صدور اپنے بیانات اور اظہار خیال میں خاصے محتاط ہوا کرتے تھے اور غیرضروری بیان بازی سے بھی گریز کیا کرتے تھے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت کا ایک یہ پہلو بھی سامنے آیا کہ کئی ماہ پرانی کسی بات کا چرچا کر کے ایک نئے تنازعے کو کھڑا کر دیتے ہیں اور ضروری بھی نہیں کہ وہ کوئی سرکاری بات ہو بلکہ نجی محفلوں میں ہوئی باتیں بھی اُن کے لئے صیغہ¿ راز میں رکھنا ضروری نہیں ہوتیں اور اِس رویئے پر امریکی معاشرے میں گرما گرم بحث جاری ہے۔ تازہ ترین واقعہ اُن کا امریکہ فوجیوں کے بارے میں اظہار خیال ہے جس میں انہوں نے فوجیوں کو شکست خوردہ قرار دیا اور اُن کی توہین کی۔ یہ بات امریکی ذرائع ابلاغ نے رپورٹ کی۔ چونکہ اِن دنوں امریکہ میں صدراتی انتخابات کے لئے تیاریوں کا سلسلہ جاری ہے اِس لئے حزب مخالف سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنماو¿ں نے امریکی صدر کے اِن الفاظ کو توہین آمیز قرار دیا اور وہ امریکی عوام کے سامنے یہ نکتہ رکھ رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ کس طرح امریکی اقدار اور ماحول کے لئے خطرہ ہیں اور وہ کس طرح اپنے ہی ملک کے فوجیوں کے لئے باعث عزت و افتخار نہیں ہیں۔
امریکی اخبار اٹلانٹک میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فرانس کے دورے کے دوران ایک امریکی قبرستان کا طے شدہ دورہ آخری وقت میں یہ کہتے ہوئے منسوخ کر دیا کہ بارش کے باعث اُن کا ہیلی کاپٹر مذکورہ مقام تک پرواز نہیں کر سکا تھا اور دوسرا خفیہ اداروں نے بھی اُنہیں قبرستان نہ جانے کا مشورہ دیا تھا لیکن یہ دونوں باتیں جھوٹ تھیں اور صدر نے دورہ اپنی مرضی سے منسوخ کرنے کے بعد کہانی بنائی۔ امریکی معاشرے میں کسی بھی حکمران کے جھوٹ بولنے کو سب سے زیادہ معیوب (بُرا) سمجھا جاتا ہے۔ مذکورہ اخبار نے مزید لکھا کہ صدر ٹرمپ اِس لئے قبرستان نہیں گئے کیونکہ ڈر تھا کہ بارش کے پانی سے اُن کے بال خراب ہو جائیں گے اور اُنہیں اپنے بالوں کی زیادہ فکر تھی لیکن امریکہ کے لئے جان دینے والے فوجیوں کے قبرستان نہ جا کر اُنہوں نے جس قسم کے رویئے کا مظاہرہ کیا‘ اُسے امریکی ذرائع ابلاغ اور عوام ’بے عزتی‘ قرار دے رہے ہیں۔
اِسی طرح صدر امریکہ نے دفاعی فیصلہ سازوں (پینٹاگون) کے بارے میں کہا کہ اُنہیں صرف اِس بات سے غرض ہے کہ زیادہ سے زیادہ بم اور ہتھیار خریدے جائیں اور اِس مقصد کے لئے وہ جن اداروں سے ہتھیاروں کی خریداری کرتے ہیں اُنہیں خوش کرنے کے لئے جنگیں ختم کرنے کی بجائے اُنہیں جاری رکھا جاتا ہے۔ صدر ٹرمپ کے اِس بیان پر شدید ردعمل دیکھنے میں آیا لیکن امریکی ذرائع ابلاغ صدر امریکہ کو آئینہ دکھا رہے ہیں کہ اُن کی وجہ سے بہت سارے تنازعات اور جنگیں ختم نہیں ہو رہیں اور اِس سلسلے میں بالخصوص اسرائیل کا ذکر کیا جاتا ہے جس کی پشت پناہی کرنے کی وجہ سے امریکہ کو ہر سال اربوں ڈالر خرچ کرنے پڑ رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے افغانستان میں فوجیوں کی تعداد میں ایک موقع پر اضافہ کیا تھا جس کی وجہ سے خزانے پر 700 ارب ڈالر جیسا غیرمعمولی بوجھ پڑا تھا لیکن اِس بارے میں وہ زیادہ بات نہیں کرتے اور نہ ہی تنقید سنتے ہیں۔
ٹرمپ ایسے پہلے صدر ہیں جنہوں نے پینٹاگون کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اگر دباو¿ میں آ کر امریکی عسکری قیادت کوئی فیصلہ کرتی ہے تو جلد بازی میں کئے فیصلے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ کوریائی خطے میں امریکی فوجی مہمات کے سبب تیس لاکھ اموات ہوئی ہیں۔ اسی طرح ویتنام میں بھی امریکہ کی وجہ سے ستر لاکھ مرے جبکہ عراق میں پچیس لاکھ لوگ امریکی جنگ کے باعث موت کے منہ میں چلے گئے۔ شام میں ساڑھے پانچ لاکھ سے زیادہ انسانوں کی موت امریکہ کے ہاتھوں ہوئی اور اگر اُن تمام مرنے والے انسانوں کی کھوپڑیاں جمع کی جائیں تو اس سے کھوپڑیوں کا ایک پہاڑ کھڑا ہو جائے گا۔ صدر ٹرمپ کا یہ کہنا کہ صرف دفاعی فیصلہ ساز اسلحہ بنانے والی کمپنیوں کے مفاد کے بارے میں سوچتے ہیں اور اُن سے مفادات حاصل کرتے ہیں
پورا سچ نہیں بلکہ سیاست دان بھی اِس سودے میں برابر کے شریک ہیں اور وہ بھی اسلحہ سازوں سے مالی فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ امریکہ کے دفاعی بجٹ میں کمی کے ساتھ وہاں مضبوط و فعال بلدیاتی نظام کے قیام کے بارے میں بحث ہو رہی ہے۔ امریکہ کی کئی ریاستوں میں رہنے والے بھوک و افلاس اور بیروزگاری کا شکار ہیں اور ایسے افراد کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے سیاسی فیصلہ سازوں کو زیادہ توجہ دینی چاہئے۔ دنیا پر جنگ مسلط کرکے امریکہ اپنے وسائل کا بڑا حصہ ضائع کر رہا ہے جسے بچایا اور عوام کی بہبود پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: عبدالستار۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)