قانون سازی بمقابلہ بدعنوانی

دنیا بدل رہی ہے۔ عالمی سطح پر سخت گیر مالیاتی نظم وضبط کی ضرورت پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے اور پاکستان اِس سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں سے الگ نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی تنظیم ’فنانشل ایکشن ٹاسک فورس‘ کے پرزور مطالبے اور اصرار کو مدنظر رکھتے ہوئے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں قانون سازی کی گئی جس کے بارے میں حزب اختلافات عوام کے ذہنوں میں یہ کہتے ہوئے شکوک و شبہات کے بیج بو رہی ہے کہ مذکورہ قانون سازی کے سیاسی عزائم بھی ہیں اور حکومت صرف ’ایف اے ٹی ایف‘ کی ضروریات پوری کرنے کے لئے نہیں بلکہ سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لئے بھی اِس قانون سازی کا استعمال کرے گی۔ عجیب منطق ہے کہ ابھی قانون بنا ہی ہے اور اِس کا اطلاق بھی نہیں ہوا لیکن کچھ طبقات کو تشویش لاحق ہو گئی ہے۔


 درحقیقت یہ وہی طبقات ہیں جو نرم قوانین و قواعد سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے پاکستان کو اُس مقام پر لے گئے تھے جہاں اِس پر ایران کی طرح عالمی پابندیاں عائد ہونے کے امکانات پیدا ہوگئے تھے اور اِس سلسلے میں بھارت ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا تھا کہ وہ پاکستان کو ’ایف اے ٹی ایف‘ کی گرے لسٹ سے نکال کر بلیک لسٹ ممالک کے ساتھ شامل کر دے۔ بلیک لسٹ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان دنیا کے اُن ممالک میں شمار ہونے لگے گا جو دہشت گردی کی عالمی سطح پر مالی سرپرستی کر رہا ہے اور ایسے ملک سے دنیا نہ تو تجارت کرے گی اور نہ ہی امداد اور قرض دیئے جائیں گے۔ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے اُن تمام اراکین اسمبلی کو اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے جنہوں نے ’ایف اے ٹی ایف‘ قانون کی مخالفت میں ووٹ دیا اور اگرچہ اُن کے مخالفانہ ووٹ سے کچھ خاص فرق نہیں پڑا اور حکومت نے اپنا ہوم ورک کر رکھا تھا اِس لئے مذکورہ قانون منظور ہو گیا۔ اِس سے ایک اور بات بھی ثابت ہوگئی کہ تحریک انصاف نے اپنے دو سالہ دور اقتدار میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لی ہے کہ پارلیمان کے اندر کی سیاست کیسے کرنی ہے اور اگر کوئی قانون منظور کروانا ہے تو اُس کے منصوبہ بندی کس طرح کی جائے گی۔


پیپلز پارٹی کا مو¿قف ہے کہ ”ایف اے ٹی ایف کے مطالبات کی آڑ میں منی لانڈرنگ کا بل منظور کیا گیا ہے جس سے عام آدمی کی زندگی مزید مشکل ہو جائے گی۔ اس بل کی بعض شقوں پر تو حکومت نے حزب مخالف کی جماعتوں سے کسی حد تک مشاورت کی لیکن زیادہ تر ترامیم کو تو پارلیمنٹ بالخصوص سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں کے سپرد ہی نہیں کیا گیا۔ حکومت کا یہ اقدام پارلیمان پر عدم اعتماد کا مظہر ہے اور ایسے اقدامات سے پارلیمنٹ کمزور ہو رہی ہے۔“ ذہن نشین رہے کہ حزب اختلاف نے ’ایف اے ٹی ایف‘ کی آڑ میں ہونے والی قانون سازی کا معاملہ اگلے ہفتے ہونے والی حزب مخالف کی آل پارٹیز کانفرنس میں اُٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ایف اے ٹی ایف قانون کی منظوری تحریک انصاف کی فتح ہے‘ اِس لئے کہ اُسے ایوان میں برتری حاصل نہیں۔ قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ مشترکہ اجلاس کی صورت میں حزبِ مخالف کی جماعتوں کو عددی برتری ہونی چاہئے تھی تو پھر قانون مخالفت کے باوجود منظور کیسے ہوا؟ اِس سلسلے میں حزب اختلاف کا نکتہ نظر یہ ہے کہ حکومت کے علم میں تھا کہ وہ کس روز پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلائے گی تاہم حزب اختلاف کو اس اجلاس کے انعقاد کا سمن اجلاس سے چند گھنٹے پہلے جاری کیا گیا۔


 اتنے کم عرصے میں بھی حزب مخالف کی جماعتوں کی قیادت نے اپنے ارکان کی حاضری یقینی بنانے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود کچھ لوگ نہیں آ سکے جس سے مشترکہ اجلاس میں حزب اختلاف کی عددی برتری متاثر ہوئی۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری بھی سولہ ستمبر کے مشترکہ پارلیمانی اجلاس میں شریک نہیں تھے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل ) گروپ نے ایف اے ٹی ایف کے معاملے پر حکومت کا ساتھ نہیں دیا بلکہ حزب اختلاف کا ساتھ دیا۔ حکومت سے علیحدگی کے بعد بی این پی نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پہلی مرتبہ حکومت کی مخالفت کی۔ پارلیمنٹ میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کا مو¿قف ہے کہ ”ایف اے ٹی ایف کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے حزبِ مخالف کی جماعتیں قانون سازی کرنے کے لئے تیار تھیں لیکن حکومت نے اس کی آڑ میں ایسی قانون سازی بھی کر دی ہے جو کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہے۔ حکومت نے ایف اے ٹی ایف کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے تعاون مانگا تھا تو حزب اختلاف کی جماعتوں نے ملکی مفاد کے پیش نظر تعاون کیا لیکن وزیر اعظم کی طرف سے یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ حزب مخالف کی جماعتیں ایف اے ٹی ایف کے معاملے پر حکومت کو بلیک میل کرنا چاہتی ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون سازی کے لئے حزب مخالف جماعتوں کی طرف سے جو ترامیم پیش کی گئیں ہیں ان سب کو مسترد کرنے سے بھی اپوزیشن نالاں ہے۔


 منی لانڈرنگ سے متعلق جو قانون سازی کی گئی اس کا مسودہ تک متعلقہ قائمہ کمیٹی کو نہیں بھجوایا گیا اور عجلت میں قانون سازی کی گئی جس کے بعدازاں نقصانات سامنے آ سکتے ہیں۔ایف اے ٹی ایف کے مطالبات کو سامنے رکھتے ہوئے جو قانون سازی کی گئی ہے اُس کے بارے میں صرف سیاسی جماعتوں ہی کو نہیں بلکہ کاروباری طبقات کو بھی خدشات ہیں۔ شاید یہ سب لوگ چاہتے ہیں کہ حکومت مالیاتی نظم و ضبط کو نرم رکھے اور اُن امکانات کو ختم نہ کرے جس کی وجہ سے پاکستان سے بیرون ملک سرمائے کی منتقلی اور پاکستان سرمائے کی غیرقانونی نقل و حمل جاری رہے۔ اگر کوئی قانون پاکستان کے لئے انتہائی ضروری تھا تو اُس کی ہر شق پر بحث اور ہر مجوزہ ترمیم پر غور ہونا چاہئے تھا کیونکہ پارلیمان کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ وہاں قانون کے بارے میں مختلف آراءکو سامنے لایا جائے اور پھر قومی مفاد میں کوئی فیصلہ کیا جائے۔ پارلیمان کا کام صرف گنتی (رائے شماری) کے عمل میں حصہ لینے کی حد تک محدود نہیں ہونا چاہئے۔ بہرحال قوانین کی منظوری کے بعد بھی اُن میں ترامیم کی جا سکتی ہیں اور اگر حزب اختلاف اِس سلسلے میں عوام کے سامنے اپنی تجاویز رکھے تو اِس سے حکومت پر دباو¿ بڑھے گا اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ ’منی لانڈرنگ‘ یعنی غیرقانونی ذرائع سے سرمائے کی بیرون ملک منتقلی کے لئے قانون سازی کےلئے اگر ایف اے ٹی ایف مطالبہ نہ بھی کرتی تب بھی یہ پاکستان کے لئے ضروری تھا اور اِسے ضرورت ہی کے نکتہ¿ نظر سے دیکھا جانا چاہئے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر امجد اشرف۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)