جرم‘ جرائم اور سخت سزائیں 

تہذیب یافتہ معاشروں کا تعریفی حوالہ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہاں خواتین کو گھروں کے باہر بھی تحفظ فراہم ہوتا ہے اور اِس تحفظ کی فراہمی صرف اور صرف مؤثر پولیسنگ کے سبب ہوتی ہے۔ جن ممالک میں بھی امن وامان کی صورتحال مثالی دکھائی دیتی ہے وہاں پولیس کا نظام اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ فعال نظرآتا ہے اور جن ممالک میں امن و امان کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے اُس کا سبب بھی پولیسنگ ہی ہے‘ اِس بنیادی نکتے کو ذہن میں رکھتے ہوئے پاکستان کے فیصلہ سازوں کو سوچنا چاہئے کہ اگر وہ پولیس کا نظام درست نہیں کرتے تو پھر معاشرے میں امن و امان کی مذمت کرنے کا بھی اُنہیں حق حاصل نہیں۔ خواتین کیخلاف جرائم تاریک ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ صرف خواتین ہی مجرموں کے نشانے پر ہے بلکہ ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے امن و امان کی صورتحال سے پریشان ہیں اور چاہتے ہیں کہ اگر قوانین ہیں‘ اگر پولیس فورس ہے تو پھر ان کا اطلاق بھی ہونا چاہئے اور یہ ایک جائز مطالبہ ہے۔پاکستان کے قوانین کے تحت تشددکے جرم کی زیادہ سے زیادہ سزا پچیس سال قید ہے لیکن یہ سزا کافی نہیں کیونکہ زیادتی کے کئی پہلو ہیں۔ وہ خاتون جسے اُس کے بچوں کے سامنے تشددکا نشانہ بنایا گیا اگر اُس کے مجرم کو بھی عمومی سزا دی جاتی ہے تو یہ انصاف نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں تشددکے واقعات کو کم کرنے کیلئے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ایسے افراد کو سرعام سزائیں دی جائیں۔ہر ملک میں اپنے مخصوص حالات کے مطابق قانون وضع ہوتے ہیں اور اُن میں سزاؤں کا تعین کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر‘ بہت سے یورپی ممالک کے علاوہ امریکہ میں میں بھی ریاستیں عصمت دری کرنے والوں کو سخت سزائیں دیتی ہیں۔ کچھ ممالک میں عصمت دری کرنے والے کو ووٹ دینے کے حق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ پاکستانی قانون میں بھی یقینا زیادتی جیسے جرم کی سزا معمولی نہیں ہونی چاہئے اور سزاؤں کو سخت سے سخت ہونا چاہئے تاہم اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم سزا کی شدت میں اضافہ کرکے مجرموں کو جرائم کا ارتکاب کرنے سے روک سکتے ہیں؟ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ سزائے موت کی وجہ سے قتل کے واقعات میں کمی نہیں آئی بلکہ مجرم اپنے پیچھے ایسے ثبوت نہیں چھوڑتے جن کی وجہ سے اُنہیں انتہائی سزا دی جا سکے۔ اکثر وارداتوں میں تشددکی وارداتوں میں خاتون یا لڑکی (بچی) کو قتل بھی اِس وجہ سے کیا جاتا ہے تاکہ گھناؤنے جرائم کے ثبوت باقی نہ رہیں اور اگر کسی وجہ سے مجرم کی نشاندہی ہو بھی جائے تو اُسے زیادہ سے زیادہ سزا نہ دی جا سکے کیونکہ اِس میں شک کا پہلو سامنے آتا ہے‘ ضرورت اِس بات کی بھی ہے کہ زیادتی کا شکار ہونے والے کنبے اور مقتول کی صورت لواحقین کو معاوضہ دیا جائے تاکہ اُن کی پریشانی میں کچھ تو کمی ہو‘ کیونکہ صرف سزاؤں کیشدت ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ مجرم پکڑنے کے باوجود سزا سے بچ جاتے ہیں۔ اسلئے ضرورت قوانین میں موجود سقم دور کرنے کی بھی ہے جس سے عصمت دری کے ارتکاب کو روکا جا سکے جو ایک بڑھتا ہوا رجحان ہے۔چند برس پہلے کی بات ہے جب قصور کی ایک سات سالہ بچی زینب کے ساتھ عصمت دری کی گئی تھی اور اسے قتل کردیا گیا تھا‘ دہشت گردی کے اس فعل نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا تھا کہ توقع تھی کہ اُس وقت کی حکومت ایسے اقدامات کرے گی اور ایسی مثالیں قائم کرے گی جس سے زیادتی کے واقعات کو دہرایا نہ جا سکے۔ ایک کے بعد ایک واقعات ہو رہے ہیں اور تازہ ترین لاہور موٹروے سے متصل شاہراہ پر پیش آیا ہے‘ جس کے بعد یہ مطالبہ پھر سے زور پکڑ رہا ہے کہ حکومت اِن واقعات کی روک تھام کیلئے خاطر خواہ اقدامات کرے‘ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں انصاف تک رسائی کا طریقہئ کار سنگین خامیوں کا مجموعہ ہے جس میں خواتین کے خلاف تشدد میں ملوث مجرموں کو یا تو پکڑا نہیں جاتا کیونکہ بیشتر حملوں کی اطلاع پولیس کو نہیں دی جاتی یا پھر اگر مجرم پکڑے بھی جائیں تو ناکافی شواہد کی بنا پر اُنہیں خاطرخواہ سخت سزائیں نہیں ملتیں۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم میں سزائیں ملنے کا تناسب ڈھائی فیصد سے بھی کم ہے۔ تصور کریں کہ ہر ایک سو جرائم میں سے صرف دو یا ڈھائی مجرموں ہی کو سزائیں ہوتی ہیں اور یہ سزائیں بھی قرار واقعی نہیں کہ جو دوسروں کے لئے عبرت کا نشان ثابت ہوں۔ حالیہ موٹر وے کیس میں گرفتار ایک ملزم اس سے پہلے بھی عصمت دری کے مقدمہ میں ناکافی شواہد کی بنا پر بری کر دیا گیا تھا اور اُس وقت بری ہونے کی وجہ یہ تھی کہ زیادتی کا شکار ہونے والے خاندان اور اِس مجرم کے کنبے کے درمیان ’سمجھوتہ‘ ہو گیا تھا جس میں اُنہوں نے اِسے معاف کر دیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ اُس نے ایک مرتبہ پھر وہی جرم کیا  یہی وہ چیز ہے جس کی اصلاح ہونی چاہئے۔ سرعام اور سخت سزائیں ہی جرائم میں کمی کا باعث بن سکتی ہیں۔ (مضمون نگار سپریم کورٹ کے وکیل‘ سابق وفاقی وزیر قانون اور ایس سی بی اے کے سابق صدر ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: سیّد علی ظفر۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)