فساد کی جڑ

اگر آپ اپنی فوجداری اور دیوانی مقدمات کی تاریخ پر ایک تنقیدی نظر ڈالیں تو وہ آپ کو زر زن اور زمین پر ہونے والے فسادات کے واقعات سے بھری پڑی نظر آئے گی ایک اخباری رپورٹ کے مطابق سابق وزیر اعلی سندھ سید غوث علی شاہ کے بچے ان کی جان کے دشمن بن گئے ہیں انہوں نے ایک پریس کانفرس میں اپنے بچوں سے اظہار لاتعلقی کا اعلان کر دیاہے اور ان پر الزام لگایا ہے کہ وہ ان کی ملکیت پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں کہنے کا مقصد یہ کہ یہ جائیداد اتنی خراب شے ہے کہ یہ والدین اور بچوں اور سگے بہن بھائیوں کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کر دیتی ہے اوربسا اوقات بات قتل مقاتلے تک پہنچ جاتی ہے یہ اتنی خراب چیز ہے کہ کتابوں میں لکھا ہے کہ امیر باپ کے بیٹے اس کے مرنے کا انتظار کرتے تاکہ جس جائیداد پر وہ سانپ بن کر بیٹھا ہوا ہے اسے تقسیم کر وہ اللے تللے کریں جبکہ غریب باپ کی اولاد ہر وقت خدا سے دعا گو ہوتی ہے کہ وہ ان کے باپ کی عمر دراز کرے کیونکہ وہی ان کا سرمایا ہے امیر باپ کی وفات کے بعد اس کے بیٹے اس کی جائیداد کے حصے بخرے کرتے ہیں تو وہ دل ہی دل میں خوش ہوتے ھیں کہ چلو بڈھے باپ سے جان چھوٹی جو دولت پر سانپ بنا بیٹھا تھا لکھنے والوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ۔اگر اس وقت کہ جب وہ اپنے باپ کی پراپرٹی کے حصے بخرے کر چکے ہوں اور اچانک ان کا باپ قبر سے زندہ ہو کر نکل آئے تو اس کو زندہ دیکھ کر اس کے بیٹوں کی ذھنی حالت کیا ہو گی۔ یہ دولت اتنی خراب چیز ہے کہ شیخ سعدی ایک جگہ لکھتے ہیں کہ اگر کسی کا جوان سال بیٹا فوت ہو جائے تو کچھ عرصے کے بعد اسے صبر آ جاتا ہے اور وہ اس کا غم بھلا بیٹھتا ہے پر اگر اس کی کوئی رقم چوری ہو جائے یا اسے کسی تجارت میں کسی رقم کا نقصان ہو جائے تو اس کا روگ اسے قبر تک نہیں چھوڑتا۔ اس جملہ معترضہ کے بعد آتے ہیں چند دیگر اہم قومی امور کی طرف۔ورلڈ فوڈ پروگرام کی طرف سے یہ اعلان تشویش کا باعث ہے کہ رواں سال میں اب تک دنیا میں 70لاکھ انسان بھوک سے ہلاک ہو چکے ہیں کورونا سے جو لوگ مرے ہیں وہ ان 70 لاکھ افراد کے علاوہیں ان حقائق کے تناظر میں جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ چین کی کمیونسٹ حکومتوں کی پالیسیوں سے گزشتہ 40 برسوں میں ،30 کروڑ سے زیادہ لوگ جو 1950 میں غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزارتے تھے اب وہ اس لکیر سے اوپر آ چکے ہیں تو ان چینی زعماءکو سیلوٹ کرنے کو جی کرتا ہے کہ جو اس دوران چین میں ارباب اقتدار تھے پوری انسانی تاریخ میں اس قسم کی کوئی مثال آپ کو نہیں ملے گی چین کے حکمرانوں نے بلا شبہ اپنی معاشی پالیسیوں پر عمل درآمد کرانے کیلئے کافی سختی کی پر عوام الناس کے مفاد کیلئے اگر سختی کی جائے تو کیا مضائقہ ہے اگر دنیا میں آج 70 لاکھ بھوک کی وجہ سے مرتے ہیں تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں کس قدر معاشی ناہمواری موجود ہے اور اس کے وسائل پر ایک اقلیت کی اجارہ داری ہے۔افغانستان کے بارے میں حکومت نے شنید ہے کہ ایک ویزا پالیسی تو بنا دی ہے پر کیا یہ اچھا نہ ہوتا اگر اس پر پہلے پارلیمنٹ میں شق وار بحث کی جاتی امید ہے حکومت نے درج ذیل نکات کا کماحقہ خیال رکھا ہوگا ‘کوئی بھی افغان باشندہ پاکستان میں بغیر ویزے کے داخل نہ ہو پاکستان کا ویزہ دینے والی اتھارٹی کو پتہ ہو کہ وہ پاکستان میں کتنا عرصہ رہے گا اور اپنے قیام کے دوران پاکستان کے کس شہر میں میں اس کے آنے جانے کا پروگرام ہے اور یہ کہ وہ چھ مہینے سے زیادہ پاکستان کے اندر قیام نہیں کر سکتا ‘وزارت داخلہ نے یقینا کوئی ایسا میکنیزم بنایا ہوگا کہ جس سے وہ اس بات کی تسلی کر سکے کہ جو افغان پاکستان میں چھ مہینے تک قیام کےلئے ویزا لے کر داخل ہوا ہے وہ اس مقررہ مدت کے ختم ہونے کے بعد واپس افغانستان جا چکا ہے پاکستان میں علاج کےلئے آنے والے افغانیوں کو بھی قلیل مدت کا ویزہ دیا جا سکتا ہے اسی طرح تاجروں کےلئے بھی ایک علیحدہ کیٹیگری کا ویزا وضع کیا جا سکتا ہے تاکہ تجارتی امور کے سلسلے میں وہ پاکستان آ جا سکیں‘ پر اس بات کی تسلی بڑی ضروری ہے کہ کوئی بھی افغان علاج کے بہانے یا تجارت کرنے کی آڑ میں اس ملک میں داخل ہو کر ان ویزوں کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائے اور یہاں پر اپنا قیام طویل سے طویل نہ کر دے اس دوران بہتر ہوگا اگر وزارت داخلہ ایک آزادانہ تحقیقات شروع کردے یہ جاننے کےلئے کہ کن افغانیوں نے نادرہ کے بعض اہلکاروں کے گٹھ جوڑ سے پاکستانی شناختی کارڈ حاصل کیے اور پھر ان کی بنیاد پر پاکستان کے اندر پراپرٹی خریدی اس قسم کے افغانیوں کے خلاف سخت کاروائی کرنا بڑا ضروری ہے یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ نادرا کے جن اہلکاروں نے اس گھناو¿نے کام میں ساتھ دیا انہیں حکومت نے کیا سزا دی ۔حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے کہ ایک طرف سی پیک کی صور ت میں ترقیاتی منصوبے دشمنوں کی نظروں میں کھٹک رہے ہیں تو دوسری طرف امریکی فوج کی افغانستان سے واپسی کی صورت میں خطہ تبدیلی کے عمل سے دوچار ہونے کو ہے جس سے ممالک فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہیں۔ بھارت کی ریشہ دوانیاں بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اس لئے یہ نہ صرف حکومت بلکہ عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ احتیاط کادامن ہاتھ سے نہ جانے دیں۔