سیاست: مبہم و غیرمبہم اشارے

حزب اختلاف کی جماعتوں پر مشتمل سیاسی اتحاد ”پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)“ کی قیادت اختلافات کا شکار دکھائی دیتی ہے‘ جو اس کی جانب سے آنے والے مبہم اور متضاد بیانات سے عیاں ہے کہ جو کچھ بھی کہا جا رہا ہے وہ خاطرخواہ سوچ سمجھ کے بغیر ہے اور اِس سلسلے میں مشترکہ حکمت عملی وضع نہیں لیکن اگر سب کچھ طے شدہ ہونے کا تاثر دینے والے بیانات میں موجود تضادات کی وجہ بیان کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ اگر یہ بیانات بنیادی مسائل پر اس اتحاد کی قیادت کے درمیان اختلافات کا نتیجہ ہیں تو پھر معاملہ بہت سنجیدہ نوعیت کا ہے! گلگت بلتستان میں ہونے والے انتخابات کی مہم بلاول بھٹو زدرادی اور مریم نواز شریف دونوں ہی بہت جوش و خروش سے چلا رہے تھے۔ اس انتخابی مہم کے آغاز سے ہی کچھ ایسے بیانات اور انٹرویو آنے لگے جن سے معلوم ہو رہا تھا کہ بیان دینے والے ایک صفحے پر نہیں ہیں۔ سب سے پہلے تو بلاول نے نواز لیگ کے قائد نواز شریف کے اس بیان کی مخالفت کی جس میں انہوں نے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی پر ان کی حکومت کو کمزور کرنے اور عمران خان کے لئے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کا الزام لگایا تھا۔ ساتھ ہی بلاول نے اس بات کو بھی تسلیم کیا کہ نواز شریف کو اس بات کا حق ہے کہ وہ جو چاہیں کہیں اور جس طرح چاہیں کہیں۔ بلاول نے کہا کہ اگرچہ وہ دونوں اتحادی ہیں لیکن ان کی اپنی علیحدہ سیاسی جماعتیں ہیں اور وہ نہ ہی ایک دوسرے کےلئے الفاظ کا چناو¿ کرسکتے ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے کو کچھ کہنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔۔ مریم نواز کی جانب سے برطانوی نشریاتی ادارے سے بات چیت کی وجہ سے بھی یہ قیاس کیا جارہا ہے کہ مریم نواز کے اپنے بیانیے میں کچھ نرمی پیدا ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ’میری فوج‘ ہے اور انہیں ’کٹھ پتلی حکومت کے خاتمے کے بعد‘ آزاد اور شفاف مذاکرات پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس کے اگلے ہی دن سوات میں جمع ہونے والے اپنے حمایتیوں سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے اپنے بیانیے کو دوبارہ دہرایا اور میرے خیال سے اس کی وجہ بھی تھی۔ نواز شریف شاید سمجھتے ہیںکہ ان کا بیانیہ پنجاب میں مقبول ہو رہا ہے اور یہ بھی کہ اس بیانیے کی حمایت کرنے والے افراد پورے ملک کے عکاس ہیں۔ ان حمایتیوں میں ایک بڑا حصہ ایسے پرجوش نوجوانوں پر مشتمل ہے جو اپنے قائد اور ان کے بیانیے کا ساتھ دینے کےلئے پرعزم ہیں۔ شاید جن لوگوں کے ذمے زمینی حقائق پر نظر رکھنا ہے ان کے سامنے بھی یہ حقیقت آچکی ہے۔نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے عزائم کو کمزور کرنا چاہتے ہیں‘ نجانے ان کی حکمت عمل طویل مدت میں کیا رنگ لائے گی تاہم قلیل مدت میں اس حکمت عملی کی وجہ سے حکومت کیلئے مشکلات بڑھی ہیں۔ اسلئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ملک میں بدلتے ہوئے موسم کےساتھ سیاسی صورتحال بھی دلچسپ ہوجائےگی۔ آخر کون جانتا ہے کہ مستقبل میں ہم کون کون سے سیاسی کھیلوں اور محلاتی سازشوں کو ہوتا ہوا دیکھیں گے،مسائل میں گھری معیشت‘ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور گیس‘ غذائی اشیا اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قلت بھی حکومت کی مشکلات میں اضافہ کررہی ہیں۔ اس وقت خارجہ محاذ بھی گرم ہے۔ ایک طرف امریکہ میں نیا صدر منتخب ہوا ہے تو دوسری طرف مودی کے جارحانہ عزائم بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ اگرچہ ہر طرف سے قومی مذاکرات کی بات ہورہی ہے لیکن اب بھی مستقبل کا کوئی تبدیل شدہ اور واضح منظرنامہ ہمارے سامنے نہیں اور نہ ہی ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ تمام سٹیک ہولڈر اس تبدیل شدہ منظرنامے کو کس حد تک منظور کریں گے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہئے کہ گزشتہ چند برس کے دوران شاہد خاقان عباسی وہ واحد سیاستدان تھے جنہوں نے ملکی سیاست کے تمام کرداروں کے ساتھ بات چیت پر زور دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت ضروری ہے کیونکہ موجودہ ترتیب کارگر ثابت نہیں ہورہی اور یہ بار بار ناکام ہوگی۔ شاہد خاقان عباسی سے بہت پہلے یہ بات بے نظیر بھٹو نے بھی کی تھی۔ انہوں نے بھی ایک نئے سماجی معاہدے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ سماجی معاہدے کی اس اصطلاح کو نواز شریف بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔ کم از کم سیاستدان اس بات پر تو یکسو ہیں کہ ان کا مطالبہ کیا ہے اور وہ مذاکرات کے ذریعے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ آزاد اور شفاف انتخابات کروائے جائیں اور جمہوریت کی بنیاد یعنی سویلین بالادستی کے اصولوں کا احترام کیا جائے۔ یہ اصول عالمی طور پر تو تسلیم شدہ ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مذاکرات ہوتے ہیں تو کیا نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی کسی بات کو تسلیم کریں گے اور کیا گارنٹی ہے کہ مستقبل کے انتخابات کے حوالے سے بھی پھر میںنہ مانوں والی رٹ برقرار رہے ،کیونکہ ہمارے ہاں جو بھی ہارتا ہے وہ الیکشن کے نتائج تسلیم نہیں کرتا (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: عباس ناصر۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)