وبا کے آغاز میں ہمیں متنبہ کیا گیا تھا کہ کسی ویکسین کو تیار کرنے میں سالوں کی مدت لگ سکتی ہے لہٰذا اس کی بہت جلد توقع نہ رکھیں۔
لیکن صرف دس مہینوں کی مدت میں انجیکشن تیار ہے اور اس کو بنانے والی کمپنیاں ہماری جانی پہچانی ہیں۔
نتیجتاً سرمایہ کاری کے تجزیہ کار یہ پیش گوئی کر رہے ہیں کہ ان میں سے کم از کم دو دوا ساز کمپنیاں امریکی بائیو ٹیکنالوجی کمپنی موڈرنا اور جرمنی کی بائیونٹیک اپنی شریک بڑی امریکی کمپنی فائزر کے ساتھ اگلے سال اربوں ڈالر کمانے کی توقع کر سکتی ہیں۔
لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ ویکسین بنانے والے اس کے آگے کتنا کمائيں گے۔
ان ویکسینوں کی جس طرح مالی اعانت کی گئی ہے اور اس کے بنانے میں جتنی کمپنیاں شامل رہی ہیں اس کی وجہ سے کوئی بڑا منافع کمانے کی مدت بہت مختصر ہو سکتی ہے۔
پیسے کس نے لگائے؟
ویکسین کی فوری ضرورت کے سبب مختلف حکومتوں اور عطیہ کنندہ اداروں نے انھیں بنانے اور ان کی آزمائش کے لیے اربوں ڈالرز رقم پیش کی ہے۔ اسے گیٹس فاؤنڈیشن جیسی مخیر تنظیموں کے ساتھ علی بابا کے بانی جیک ما اور کنٹری میوزک سٹار ڈولی پارٹن سمیت متعدد افراد کی بھی حمایت حاصل رہی ہے۔
سائنس سے متعلق ڈیٹا اکٹھا کرنے والی کمپنی ایئرفینیٹی کے مطابق حکومتوں نے مجموعی طور پر اس میں ساڑھے چھ ارب پاؤنڈ کی رقم لگائی ہے جبکہ غیر منافع بخش تنظیموں نے تقریباً ڈیڑھ ارب پاؤنڈ کا عطیہ دیا ہے۔
دوا ساز کمپنیوں کی جانب سے صرف دو ارب 60 کروڑ پاؤنڈ کی سرمایہ کاری ہوئی جبکہ زیادہ سے زیادہ بیرونی فنڈنگ پر اکتفا کیا گیا ہے۔
اس بات کے پیچھے بھی اہم وجہ ہے کہ کیوں بڑی کمپنیوں نے ویکسین کے منصوبوں کی فنڈنگ میں زیادہ حصہ نہیں لیا کیونکہ شدید ہنگامی صورتحال میں ویکسین بنانا ماضی میں زیادہ منافع بخش ثابت نہیں ہوا ہے۔
دریافت کے عمل میں وقت لگتا ہے اور اس کے بارے میں بہت پراعتماد ہونا مشکل ہے۔ غریب ممالک کو اس کی بڑی رسد چاہیے لیکن وہ زیادہ قیمت برداشت نہیں کرسکتے۔ اور عام طور پر ویکسین ایک یا دو بار ہی استعمال ہوتی ہے۔ دوائیاں جو دولت مند ممالک میں مطلوب ہیں خاص طور پر ایسی دوائيں جو روزانہ کی ضرورت ہیں وہ بڑے پیمانے پر پیسے کمانے کا ذریعہ ہوتی ہیں۔
جن کمپنیوں نے زیکا اور سارس جیسی دوسری بیماریوں کے حفاظتی ٹیکوں پر کام شروع کیا تھا ان کو نقصان اٹھانا پڑا۔ دوسری طرف فلو یعنی نزلہ زکام کی دواؤں کی مارکیٹ کئی ارب ڈالر سالانہ ہے اور اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ کووڈ 19 اگر کوئی فلو جیسی چیز ہے اور یہ رہنے والی ہے تو پھر جو کمپنی اس کی مؤثر اور کم قیمت دوا بازار میں لائے گی اس کے لیے یہ منافع بخش ہو سکتی ہے۔
وہ کیا قیمت لے رہے ہیں؟
کچھ کمپنیاں باہر سے اس قدر زیادہ فنڈنگ کی صورت میں نہیں چاہتیں کہ وہ عالمی بحران سے فائدہ اٹھاتی ہوئی نظر آئیں۔ بڑی امریکی دوا ساز کمپنی جانسن اینڈ جانسن اور برطانیہ کی ایسٹرا زینیکا جو آکسفورڈ یونیورسٹی میں قائم بائیوٹیک کمپنی کے ساتھ کام کر رہی ہے ان کا کہنا ہے کہ وہ ویکسین کو صرف اپنے اخراجات کی قیمت پر ہی فراہم کریں گی۔ ایسٹرا زینیکا فی الحال سب سے سستی نظر آ رہی ہے کیونکہ اس کی قیمت فی خوراک چار امریکی ڈالر ہے۔
بائیو ٹیکنالوجی کی ایک چھوٹی کمپنی موڈرنا برسوں سے اپنی ایجاد آر این اے ویکسین کی ٹیکنالوجی پر کام کر رہی ہے۔ اس نے اپنی ایک خوراک کی قیمت 37 ڈالر رکھی ہے جو کہ بہت مہنگی ہے۔ اس کا مقصد اپنی کمپنی کے شراکت داروں کے لیے کچھ منافع کمانا ہے (اگرچہ زیادہ قیمت کا ایک حصہ ان ویکسینوں کو انتہائی کم درجہ حرارت پر پہنچانے کے اخراجات کو بھی پورا کرے گا)۔
بہر حال اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ قیمتیں طے ہیں۔
عام طور پر دوا ساز کمپنیاں مختلف ممالک میں مختلف قیمتیں رکھتی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی ملک کتنی قیمت برداشت کر سکتا ہے۔
ایسٹرا زینیکا کا قیمتوں کو کم رکھنے کا وعدہ صرف 'وبا کی مدت' کے دوران ہی ہے۔ بیماری کی سمت و رفتار دیکھ کر اگلے سال سے اس کی قیمت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
بارکلیز میں یورپی دواسازی کی تحقیق کی سربراہ ایملی فیلڈ کا کہنا ہے کہ 'ابھی امیر دنیا کی حکومتیں بلند قیمتیں ادا کریں گی کیونکہ وہ اس وبا کے خاتمے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔'
ان کا کہنا ہے کہ جیسے ہی مزید ویکسینیں سامنے آئیں گی شاید اگلے سال تک مقابلے میں اضافے کے سبب قیمتوں میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔
فائزر نے بیرونی امداد نہیں لی ہے لیکن ان کی شراکت دار کمپنی بایونٹیک کو جرمنی کی حکومت سے امداد حاصل ہوئی ہے
ایئرفینیٹی کے چیف ایگزیکٹو راسمس بیک ہانسین کا کہنا ہے کہ ہمیں خاص طور سے چھوٹی نجی کمپنیوں سے توقع نہیں کرنی چاہیے کہ وہ بغیر کسی منافع کے ویکسین بنائیں، بالخصوص ایسی صورت حال میں جب ان کے پاس دوسری مصنوعات فروخت کرنے کے لیے نہ ہوں۔
وہ کہتے ہیں: 'یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ان کمپنیوں نے بڑا خطرہ مول لیا ہے، واقعی تیزی سے کام کیا ہے اور ویکسین کی تحقیق و ترقی میں ان کی سرمایہ کاری اہم رہی ہے۔'
ان کا کہنا ہے کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ چھوٹی کمپنیاں مستقبل میں کامیابیاں حاصل کرتی رہیں تو آپ کو انھیں انعام دینے کی ضرورت ہے۔
لیکن کچھ لوگ انسانی بحران اور سرکاری فنڈنگ کا حوالہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ معمول کے مطابق کاروبار اور منافع کمانے کا وقت نہیں ہے۔
کیا انھیں اپنی ٹیکنالوجی شیئر کرنی چاہیے؟
چونکہ خطرات زیادہ ہیں اس لیے بہت سے لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ویکسین بنانے کی معلومات کو شیئر کرنا چاہیے تاکہ انڈیا اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک کی کمپنیاں اپنے لوگوں کے لیے ویکسین بنا سکیں۔
ریسرچ گروپ میڈیسن لا اینڈ پالیسی کی ڈائریکٹر ایلین ٹی ہوین کہتی ہیں کہ سرکاری فنڈنگ حاصل کرنے کی یہ شرط ہونی چاہیے تھی۔
انھوں نے کہا: ’میرے خیال میں یہ ہماری حکومتوں کا غیر دانشمندانہ کام تھا کہ انھوں نے بغیر کسی شرط کے اتنے زیادہ فنڈ فراہم کیے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ وبائی مرض کے آغاز پر بڑی دوا ساز کمپنیوں نے ویکسین بنانے کی دوڑ میں بہت کم دلچسپی ظاہر کی۔ انھوں نے صرف اس وقت کام شروع کیا جب حکومتوں اور ایجنسیوں نے مالی اعانت کا وعدہ کیا۔ لہٰذا ان کے خیال سے ان دوا ساز کمپنیوں کو اس سے زیادہ منافع کمانے کا حق حاصل نہیں ہوتا۔
انھوں نے کہا: 'یہ ایجادات ان تجارتی تنظیموں کی ملکیت بن جاتی ہیں اور اس پر کس کے مالکانہ حقوق ہونے چاہییں اور اس ایجاد کا علم کس کے پاس ہونا چاہیے، یہ بھی کمپنی کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔'
اگرچہ حقوقِ دانش کے معاملے میں کچھ تبادلہ جاری ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ بالکل بھی کافی نہیں ہے۔
تو کیا دواساز کمپنیاں بہت منافع کمائیں گی؟
حکومتوں اور کثیرالجہتی تنظیموں نے پہلے سے ہی مقررہ قیمتوں پر ویکسین کی اربوں خوراکیں خریدنے کا وعدہ کر رکھا ہے، لہٰذا اگلے چند مہینوں تک دوا ساز کمپنیاں ان آرڈرز کو جلد از جلد پورا کرنے میں مصروف رہیں گی۔
جو کمپنیاں بڑی جیبوں والے ممالک کو اپنی ویکسین فروخت کررہی ہیں ان کو ان کی سرمایہ کاری کا بدلہ ملنے لگے گا جبکہ ایسٹرا زینیکا جیسی کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ صرف اپنی لاگت کی قیمت پر خوراک فراہم کرے گی حالانکہ وہ سب سے زیادہ تعداد میں خوراک تیار کر رہی ہے۔
پہلے کیے جانے والے معاہدوں کی تکمیل کے بعد یہ کہنا مشکل ہوگا کہ بعد کا منظرنامہ کیسا ہوگا۔
اس کا انحصار بہت ساری چیزوں پر ہوگا۔ مثلاً ٹیکے لگوانے والوں میں کتنی دیر تک قوت مدافعت قائم رہتی ہے، کتنی کامیاب ویکسین سامنے آتی ہیں اور آیا ان کی پیداوار اور تقسیم سہولت کے ساتھ ہو رہی ہے؟
بارکلیز کی ایملی فیلڈ کا خیال ہے کہ منافع کمانے کا وقت 'بہت عارضی' ہوگا۔
یہاں تک کہ اگر صفِ اول کی کمپنیاں اپنی دانشورانہ املاک کو دوسروں کے ساتھ شيئر نہیں بھی کرتیں، تو بھی دنیا بھر میں تقریباً 50 ویکسینز کی کلینکل آزمائش جاری ہیں۔
ایملی فیلڈ کہتی ہیں: 'دو سال کے عرصے میں کم از کم 20 ویکسین مارکیٹ میں دستیاب ہوسکتی ہیں، اس لیے بلند قیمت وصول کرنا مشکل ہو گا۔'
ان کا خیال ہے کہ وقت کے ساتھ بات ساکھ پر آ جائے گی۔ ایک کامیاب ویکسین کی آمد سے کووڈ کے علاج اور اس کے متعلق دیگر مصنوعات کی فروخت کا دروازہ کھل جائے گا۔
ایئرفینٹی کے راسمس بیک ہانسن اس سے بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اس صورت میں پوری صنعت کو فائدہ پہنچے گا۔
مستقبل میں حکومتیں وبا کی تیاری میں زیادہ خرچ کر سکتی ہیں
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک تابناک پہلو ہے جو اس وبائی مرض سے سامنے آ سکتا ہے۔‘
انھیں توقع ہے کہ مستقبل میں حکومتیں وبا کے متعلق حکمت عملیاں بنانے میں اسی طرح خرچ کریں گی جس طرح انھوں نے دفاع میں سرمایہ کاری کی ہے۔ اسے ضروری اخراجات کے زمرے میں رکھیں گی جس کا وہ استعمال نہیں کریں گی۔
بائیونٹیک اور موڈرنا کی مارکیٹ ویلیو بڑھنے کی ایک اور سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ان کی ویکسینز نے ان کی آر این اے ٹیکنالوجی کے تصور کو ثبوت فراہم کیا ہے۔
ایملی فیلڈ کا کہنا ہے کہ 'ہر کوئی اس کے مؤثر ہونے کا معترف ہے۔ اس سے ویکسین کی تیاری کی زمین بدل سکتی ہے۔'
کووڈ سے پہلے بائیونٹیک جلد کے کینسر کی ایک ویکسین پر کام کر رہی تھی، جبکہ موڈرنا رحمِ مادر کے کینسر کے لیے آر این اے پر مبنی ویکسین پر کام کر رہی ہے۔
اگر ان میں سے کوئی بھی کامیاب ہوجاتی ہے تو اس کا انعام بہت زیادہ ہوسکتا ہے۔ (بشکریہ بی بی سی )