امریکہ کے نومنتخب صدر ’جوبائیڈن‘ چھیالیسویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھانے والے ہیں اور دنیا ایک بار پھر امریکی خارجہ پالیسی میں دوبارہ استحکام اور مقصد کا احساس پیدا ہونے کا انتظار کررہی ہے جسے ان کے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نقصان پہنچایا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی ٹرمپ کے آنے سے پہلے ہی راستے سے بھٹک چکی تھی۔ امریکہ کو عالمی قیادت بنانے سے متعلق واشنگٹن کے خواب کا نتیجہ نہ ختم ہونے والی جنگوں اور امریکی خارجہ پالیسی میں عسکریت کا باعث بنا۔ اس کے نتیجے میں ملک کے اندر اور باہر ناراضگی اور شکایات میں اضافہ ہوا۔ ٹرمپ نے اس مسئلے کو اٹھانے میں اپنے لئے موقع تلاش کرلیا۔ ٹرمپ نے خاص طور پر چین کے ساتھ تعلقات‘ عالمگیریت اور اس عالمی اشرافیہ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو ہدف بنایا جو اپنے کاروباری اور ذاتی مفاد کو امریکہ اور خاص طور پر امریکہ کے ملازمت پیشہ طبقے کے مفادات پر ترجیح دیتے تھے لیکن خارجہ پالیسی کو درست کرنے کی بجائے انہوں نے اسے مزید نقصان پہنچایا اور اس پالیسی اور اس کی عوامی حمایت کو مجروح کیا۔ ٹرمپ تو انتخاب ہار گئے ہیں لیکن ان کے خیالات زندہ رہیں گے۔ وہ آگے بھی عدم اطمینان کا باعث بنتے رہے اور ایک پہلے ہی غیر فعال نظام کی مزید تباہی کا باعث بنتے رہیں گے۔ امریکہ کی سیاست میں کئی چیزوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ بائیڈن کو ایک شورش پسند ٹرمپ کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ایک منقسم ملک اور کورونا زدہ معیشت کی بہتری کےلئے بھی کام کرنا ہوگا۔ خارجہ پالیسی کے دیگر پہلوو¿ں کی بات کی جائے تو مغربی یورپ اور جاپان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بحال ہوں گے اور اسرائیل‘ بھارت اور خلیجی ممالک کےساتھ امریکہ کے مضبوط تعلقات ایسے ہی جاری رہیں گے تاہم بائیڈن روس کے ساتھ سخت رویہ رکھیں گے کیونکہ امریکہ کےلئے روس خارجہ پالیسی کا ایک چیلنج بھی ہے اور ایک داخلی مسئلہ بھی چونکہ بائیڈن کو کانگریس میں بہت زیادہ حمایت حاصل نہیں ہوگی اس لئے مقامی سیاست ان کے دیگر ایجنڈوں میں رکاوٹ بنے گی۔ اسی وجہ سے شاید ایران جوہری معاہدے میں دوبارہ شامل ہونے میں بھی کوئی جلدی نہ کی جائے۔پاک امریکہ تعلقات کی بات کی جائے تو چیزیں جیسی دلکش نظر آرہی ہیں شاید ویسی نہ ہوں۔ بائیڈن انتظامیہ اوباما انتظامیہ کا تسلسل نہیں ہوگی۔ یاد رہے کہ پاکستان کے پاس اوباما انتظامیہ کے حوالے سے بہت اچھی یادیں نہیں۔ پاک امریکہ تعلقات کا انحصار ماضی کے اُنیس برس پر نہیں ہوگا کیونکہ اب بہت کچھ بدل چکا ہے۔ امریکہ کی جنگ اب تاریخ بنتی جارہی ہے اور امریکہ اور پاکستان کے درمیان افغانستان کے معاملے پر تاثر اور پالیسی کے اختلافات بھی کم ہوگئے ہیں لیکن افغان حکومت اور طالبان کے درمیان اب بھی دوریاں موجود ہیں جنہیں صرف مذاکرات سے کم نہیں کیا جاسکتا۔ اس وجہ سے یہ تنازعہ کسی نئے نام کے ساتھ جاری رہے گا اور امریکہ کو اس تنازع کو جنگ کے علاوہ کسی اور طریقے سے حل کروانا پڑے گا اور وہاں پاکستان کی مدد بہت اہم ہوگی۔ افغانستان کا تعلق دہشت گردی کے مسئلے سے بھی ہے۔ اگر اس تنازع کا کوئی حل نہ نکلا تو داعش اور القاعدہ جیسے دہشت گردی کے بین الاقوامی نیٹ ورکس کو فروغ ملے گا۔ یہ ایک ایسا خطرہ ہے کہ جس سے نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت کے استحکام کو بھی خطرہ ہے۔ اس سے امریکہ کی چین کے حوالے سے پالیسی بھی متاثر ہوگی۔ اس طرح امریکہ کےلئے پاکستان کی ضرورت افغانستان کے معاملے سے مزید آگے بڑھ جائے گی۔ اس وقت امریکہ کی سلامتی اور جنوبی ایشیا میں اس کے مفادات خطرے میں ہیں۔ اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ امریکہ کی انڈو پیسیفک حکمت عملی میں چین کے ساتھ پاکستان کو بھی ہدف بنایا جائے اور پاکستان پر امریکی اور بھارتی دباو¿ ڈالا جائے کیونکہ اس طرح پاکستان چین کے مزید قریب ہوجائے گا اور چینی مفادات کےلئے کام کرے گا لیکن اگر پاکستان امریکہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنا چاہتا ہے تو اسے دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات پر مثبت ردِعمل دینا ہوگا۔ ماضی کی طرح دوبارہ امداد ملنے کا ابھی تک کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ وہ امداد سرد جنگ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے ملا کرتی تھی اور اب یہ دونوں ہی صورتحال موجود نہیں ہیں لیکن یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ ان دونوں ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر آجائیں جس میں پاکستان امریکہ کا اتحادی تو نہ ہو لیکن اس سے الگ بھی نہ ہو۔ اس کے متبادل کو دیکھا جائے تو اس طرح کا تعلق ہی بہتر رہے گا۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: توقیر حسین۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)