وسط ایشیائی حالات: روس و چین کی دلچسپی۔

قازقستان کی وزارت شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق قازقستان میں قازق نسل کے لوگوں کی آبادی میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے جو سال2014ءمیں چالیس فیصد سے بڑھ کر 2020ءمیں 68فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ آبادی میں تبدیلی حکام کےلئے ایک حوصلہ افزا بات ہے جس سے انہیں زیادہ سخت قوم پرستانہ مو¿قف اختیار کرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ اس سلسلے میں حکومت مختلف علاقوں اور شہروں کے متحدہ روس (سوویت یونین) کے دور کے ناموں کو تبدیلی کر رہی اور ملک میں اس دور سے رائج رسم الخط کو بھی ختم کر رہی ہے۔ دوسری طرف چین جو اپنی جگہ بڑی معاشی اور دفاعی طاقت کے طور پر اُبھر رہا ہے اس سے بھی قازقستان خائف ہے اور اس کے بارے میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ چین بڑی خاموشی سے معاشی طور پر توسیع پسندانہ پالیسی پر کاربند ہے اور قازقستان کے قدرتی ذخائر پر قابض ہونا چاہتا ہے۔عوامی سطح پر چین اور قازقستان کے درمیان معاشی معاہدوں کے بارے میں بھی شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں اور ان کے خیال میں ان معاہدوں سے بڑی تعداد میں چینی شہریوں کے ملک میں آنے کے دورازے کھل جائیں گے۔ چین کے بارے میں ملک میں پائے جانے والے منفی جذبات کی ایک اور بڑی وجہ چین میں نسلی اقلیتیوں جن میں قازق بھی شامل ہیں ان سے سنکیانگ کے صوبے میں روا رکھا جانے والا سلوک ہے۔ اپریل اور مئی دوہزارسولہ میں ہزاروں کی تعداد میں قازقستان کے لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر حکومت کے اس منصوبے کی مخالفت کی تھی جس کے تحت ملک کی زرعی زمین چینی خریداروں کو فروخت ہونا تھی۔ عصر حاضر میں قازقستان میں حکومت کے خلاف ہونے والا سب سے بڑا احتجاج تھا۔ اس احتجاج کے نتیجے میں حکومت نے زرعی اطلاحات کو مو¿خر کر دیا جن میں ملک کی زرعی زمین کو دیگر ملکوں کو پٹے پر دینے کا منصوبہ بھی شامل تھا۔ چین کے خلاف دوسری مرتبہ عوامی احتجاج 2019ءمیں ہوا تھا جب چین کے ساتھ درجنوں مشترکہ صنعتی منصوبے شروع کئے جانے کی بات ہو رہی تھی۔ حالیہ برسوں میں حکومت کے خلاف ہونے والے عوامی مظاہروں کا ایک بڑا عنصر ملک میں پائے جانے والے چین مخالف جذبات رہے ہیں۔قازقستان کے حکام نے حالیہ دنوں میں ملک کی جغرافیائی خودمختاری اور سالمیت کے بارے میں بیانات دینے کے سلسلے کو تیز کر دیا ہے اور وہ بڑے شد و مد سے شہریوں کے اپنے مادر وطن کے دفاع کے حق کو جتا رہے ہیں۔ قازقستان کے لوگوں کو اپنی مقدس زمین اپنے آباو¿ اجداد سے ورثے میں ملی ہے اور وہ ہر طریقے سے اس کا تحفظ کریں گے۔ یہ بیانات قازقستان کی علاقائی سرحدوں کے بارے میں تسلسل کے ساتھ کئے جانے والے دعوو¿ں کے ردعمل میں دیئے جا رہے ہیں۔ گذشتہ سال دسمبر میں روس کے دو منتخب نمائندوں کی طرف سے قازقستان سے متعلق بیان دیا گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ قازقستان ماضی میں ان کا حصہ رہا ہے اور وہ اسے دوبارہ اپنا حصہ بنانا چاہتے ہیں قازقستان کے ایک سرکاری اخبار کی ویب سائٹ پر چھپنے والے طویل مضمون میں قازقستان کے صدر قاسم جومارٹ نے کہا کہ قازقستان کو عوامی اور سرکاری سطح پر قازقستان کی جغرافیائی سلامتی کے بارے میں بیرونی عناصر کی طرف سے اشتعال انگیز بیانات کا بھرپور جواب دینا چاہئے۔انہوںنے کہا کہ ’سچ یہ ہے کہ ہم سب یہ جانتے ہیں کہ ہماری سرزمین کبھی کسی غیر ملکی کے زیر تسلط نہیں ہو گی اور کبھی فروخت نہیں کی جائے گی۔‘ انہوں نے اپنے ہم وطنوں پر زور دیا کہ وہ قازقستان کی زبان پڑھیں اور قازقستان کی سویت یونین کے دور کی تاریخ پر تحقیق کریں۔ صدر قاسم کے ان الفاظ میں ملک کے سابق صدر اور قومی رہنما نور سلطان نذربائیوف کی اس تقریر کی گونج سنائی دی جو انہوں نے گذشتہ سال پندرہ دسمبر کے روز کی تھی گذشتہ سال مئی میں بھی انہوں نے کھلے بندوں روس کی سربراہی میں بنائے جانے والے ’یوریشین اکانومی یونین‘ نامی اتحاد کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور ان تحفظات کا اظہار کیا تھا کہ اس اتحاد کا مقصد قازقستان سمیت خطے کے ملکوں کی خودمختاری کو محدود کرنا ہے۔ صدر کی طرف سے روس کے خلاف اس جرات مندانہ بیان کو قازقستان میں خوب حمایت حاصل ہوئی۔ قازقستان کی حکومت نے اسی شدت کے ساتھ چین کی ایک ویب سائٹ پر گذشتہ سال اپریل میں شائع ہونے والے بیان پر شدید ردعمل ظاہر کیا۔ چین کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے مضمون میں یہ کہا گیا تھا کہ قازقستان کسی زمانے میں چین کا حصہ تھا اور قازقستان میں لوگوں کی اکثریت چین میں دوبارہ شامل ہونا چاہتی ہے چین کو حکومت کی طرف سے سخت جواب پر قازقستان کے عوام میں خوشی کا اظہار کیا گیا۔ اس وقت چین میں قازقستان کے سابق سفیر اور ملک کے ممتاز منصف مراد آو¿زف نے کہا تھا کہ چین کو احتجاجی مراسلہ ارسال کرنا بہت قابل ستائش ہے۔ برسوں کی خاموشی کے بعد قازقستان کی طرف سے یہ کہنا کہ اب ایسے نہیں چلے گا بہت بڑی بات ہے۔روس اور چین جو خطے میں دو بڑے ملک ہیں اور جن کا خطے کی ’جیو پالیٹکس‘ میں اہم کردار ہے ان کو قازقستان میں مختلف وجوہات کی بنا پر شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ ملک میں بسنے والے پنتیس لاکھ روسی نژاد لوگ ہیں جو مجموعی آبادی کا بیس فیصد بنتے ہیں اور جن کی اکثریت ملک کے شمال میں روس کے ساتھ 6846کلو میٹر طویل سرحد سے متصل علاقوں میں آباد ہے۔ روس نے ماضی میں کئی جنگی مہمات کو جائز قرار دینے کے لئے روسی سرحدوں سے پار ہمسایہ ملکوں میں بسنے والے روسی نژاد اقلیتوں کے تحفظ کا بہانہ بنایا ہے۔ (بشکریہ: دی گارڈین۔ تحریر: ولیم سپرے۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)