کرکٹ: ماضی کے درخشاں باب

پاکستان میں صرف کرکٹ کا کھیل کھیلا ہی نہیں جاتا بلکہ اِس کا ایک درخشاں باب (ماضی) بھی یادگار و تاریخی واقعات سے مزین ہے اور کرکٹ کے شائقین بالخصوص نوجوان نسل کےلئے ضروری ہے کہ وہ قومی کرکٹ کے چند تاریخی و یادگاری پہلوو¿ں سے آشنا اور کرکٹ کی مسلسل تاریخ سے وابستہ رہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کرکٹ میں دیگر کھیلوں کی طرح فٹنس کی خاص اہمیت ہے اور یہی وجہ ہے کہ بیرون ملک سے بھی پیشہ ورانہ تربیت دینے والے لوگ اِس شعبے کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔بارہ اکتوبر 2018ءکے روز اولیائے کرام کی سرزمین ملتان میں حنیف محمد کے پوتے اور سابق ٹیسٹ کرکٹر شعیب محمد کے بیٹے شہزاد محمد نے 265 رنز بنا کر فرسٹ کلاس کرکٹ میں اپنی ’پہلی ڈبل سنچری سکور‘ کی۔ اس ڈبل سنچری کی وجہ سے یہ گھرانہ برطانوی ڈی آلیور خاندان کے بعد دوسرا گھرانہ بن گیا ہے جس کی تین نسلوں نے یہ اعزاز حاصل کیا ہے۔ شہراد کا کہنا تھا کہ ’جی ہاں‘ یہ ڈبل سنچری میرے فرسٹ کلاس کیریئر کی پہچان ہے۔ جب میں نے پچاس رنز بنالیے تو مجھے اندازہ ہوا کہ آج کا دن میرے لئے اچھا ہے اور ذہن میں خیال آیا کہ چلو دیکھتے ہیں آج میں کتنی لمبی اننگ کھیلتا ہوں۔ ملتان اسٹیڈیم کی وکٹ اچھی تھی لیکن آسان نہیں تھی۔ مجھے درمیان میں کچھ مشکل پیش آئی لیکن اپنے اچھے فٹنس لیول کی وجہ سے سو رنز بنانے کے بعد بھی میں تھکا نہیں۔‘مجھے معلوم تھا کہ میں نے زندگی میں بہت سی ناکامیاں دیکھی ہیں اس لئے مجھے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرنا تھا۔ سنچری بنانے کے بعد بھی میرا ذہن مرتکز تھا۔ میں لگاتار سیشنز میں کھیل رہا تھا اور میں نے تقریباً دو دن تک بیٹنگ کی۔ یہ بہت اچھا احساس تھا اور بالآخر میری محنت رنگ لے آئی۔‘ شہزار کو کم عمری میں ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ جس خاندان سے اُس کا تعلق ہے وہ کرکٹ کی دنیا میں اپنا ایک مقام رکھتا ہے میں اس کھیل کے حوالے سے بہت پُرجوش تھا اور اس میں آگے بڑھنا چاہتا تھا۔ میں نے سات سال کی عمر میں فیصلہ کرلیا تھا کہ میں کرکٹر بنوں گا لیکن کھلاڑیوں کے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے دیگر کرکٹرز کی طرح شہزاد کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوئے ہیں۔ ہاں ہم ایسے خاندان سے ہیں جس نے کرکٹ میں اپنا نام بنایا ہے لیکن اسی وجہ سے ہمیں درپیش مشکلات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ ہماری کارکردگی کا ہروقت تقابل ہورہا ہوتا ہے اور اس وجہ سے ہمیں دوسروں سے زیادہ محنت کرنی ہوتی ہے۔ لوگوں کو وہ محنت اور مشکلات نظر نہیں آتیں جن سے ہم گزرتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ہمیں آسانی سے اوپر آنے کا راستہ مل گیا ہے لیکن ان سب پریشانیوں کے باوجود یہ ایک اچھا احساس ہے جو دیگر حالات میں مجھے کسی بھی طرح میسر نہیں آتا۔ شہزاد نے بہت ہی کم عمری میں پاکستان چھوڑ دیا تھا۔ جب میں دس سال کا تھا تو میرے والدین میں علیحدگی ہوگئی اور میں امریکہ چلا گیا۔ میں نے اپنے لڑکپن کے دن ہوسٹن میں گزارے اور ہائی سکول وہیں مکمل کیا۔ میں چھٹی کے دن کلب کرکٹ بھی کھیلتا تھا۔ میں نے اٹھارہ سال کی عمر میں پاکستان آنے اور انڈر نائنٹین کرکٹ کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ جس کے بعد مجھے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے کا موقع بھی ملا۔ قائدِاعظم ٹرافی کے موجودہ سیزن میں اگرچہ شہزاد سندھ سیکنڈ الیون کی نمائندگی کررہے ہیں لیکن اس سے ان کے عزائم میں رکاوٹ نہیں آئی۔ شہزاد فٹنس کے دلدادہ ہیں اور کراچی میں ایک بہترین جم چلاتے ہیں۔ ’کرکٹر ہونے کی حیثیت سے مجھے ذہنی اور جسمانی تندرستی کا شروع سے ہی خیال تھا۔ یہ ہمیشہ سے میرا شوق رہا ہے۔ چھ سال پہلے اس میں مزید اضافہ ہوا کیونکہ میں کرکٹر کی حیثیت سے خود میں بہتری لانا چاہتا تھا۔ میں نے امریکہ سے سپورٹس بائیو مکینکس اور کراس فٹ کے سرٹیفیکیٹ کورس کئے۔ جب میں نے پاکستان میں اپنا پہلا جم کھولا تو امریکہ کے مقابلے میں یہاں اس حوالے سے لوگوں کو بہت کم آگہی تھی لیکن مجھے خوشی ہے کہ اب حالات بدل رہے ہیں۔ اگر لوگ تندرست ہوں گے تو پاکستان تندرست ہوگا۔ میں بہتر زندگی گزارنے کے حوالے سے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتا ہوں۔ فٹنس ٹریننگ نے ذہنی ارتکاز اور صحت مند زندگی گزارنے میں میری مدد کی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ دوسرے بھی اس پر عمل کریں گزشتہ کچھ سالوں میں مجھے شان مسعود‘ اظہر علی‘ سرفراز‘ اسد شفیق اور صہیب مقصود جیسے کھلاڑیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہے۔ اعظم خان میرے ساتھ ٹریننگ کرتے رہے اور انہوں نے ایک سال میں بتیس کلوگرام وزن کم کیا۔ یہ ایک جاری رہنے والا کام ہے جو اگلے ڈیڑھ سال جاری رہے گا جس کے بعد وہ مکمل طور پر فٹ ہوجائیں گے۔ اِسی طرح بلال اشرف اور محب مرزا جیسے اداکار کے ساتھ بھی کام کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اداکاروں کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ کھلاڑیوں کے ساتھ کام کرنے کے تجربے سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ جم میں کرکٹرز کا رویہ بہت اچھا ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک مقصد کے حصول کےلئے محنت کررہے ہوتے ہیں۔ مستقبل میں کرکٹ کا سارا دار و مدار صرف فٹنس پر ہوگا۔ ٹی ٹوئنٹی ایک تھکا دینے والا فارمیٹ ہے اور اِس میں کارکردگی کا انحصار صرف اور صرف فٹنس لیول پر ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ایس ایم حسین۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)