لائحہ عمل کی اصلاح۔۔

یادش بخیر اگست 2018ءمیں عمران خان نے بطور 22 ویں ’وزیراعظم پاکستان‘ حلف اُٹھایا۔ اگست 2018ءسے جنوری 2021ءکا درمیانی عرصہ پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت کا دور اقتدار ہے۔ اِن 29 ماہ کے دوران کارکردگی کو اگر جامع انداز میں بیان کیا جائے تو اِسے 6 ادوار میں تقسیم کر کے حکومت کی کارکردگی کو سمجھا جا سکتا ہے۔ 1: حکومت نے آمدن و اخراجات کے درمیان توازن قائم کیا اور جاری اخراجات کے خسارے کو منفی سے مثبت میں تبدیل کیا۔ 2: گندم اور آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ آٹے کی قیمت 35 روپے سے بڑھ کر اوسطاً 75 روپے تک جا پہنچی۔ 3: چینی کی قیمت میں اضافہ ہوا۔ چینی کی قیمت 55 روپے فی کلوگرام سے بڑھ کر اوسطاً 90 روپے فی کلوگرام تک جا پہنچی۔ 4: بجلی کی قیمت میں اضافہ ہوا۔ بجلی کی قیمت 11 روپے فی یونٹ سے بڑھ کر اوسطاً 28 روپے فی یونٹ تک جا پہنچی۔ 5: سال 2018ءمیں 31.5 فیصد پاکستانی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرتے تھے یعنی ساڑھے اکتیس فیصد پاکستانیوں کی یومیہ آمدنی تین سو روپے سے کم تھی لیکن تحریک انصاف کے 29 ماہ دورانئے پر مشتمل دور اقتدار میں خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد ساڑھے اکتیس فیصد سے بڑھ کر چالیس فیصد تک جا پہنچی۔ اگر اِس بات کو اعدادوشمار کے ذریعے بیان کیا جائے تو سال 2018ءمیں 6 کروڑ 90 لاکھ لوگ غریب تھے جبکہ 29 ماہ بعد 8 کروڑ 70 افراد کا شمار غریبوں میں ہو رہا ہے۔ 6: آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ’عثمان بزدار‘ کو وزیراعلیٰ بنایا گیا جن کی کارکردگی کا جائزہ جس کسی پہلو سے بھی لیا جائے وہ مثالی نہیں ہے۔ یہ بات منطق سے بالاتر ہے کہ تحریک انصاف نے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی حکومت انتظامی طور پر ایک ناتجربہ کارشخص کے حوالے کر دی ۔پاکستان معاشی و اقتصادی بحرانوں کے دور سے گزر رہا ہے جہاں عام آدمی کا طرز زندگی بہتر ہونے کی بجائے خرابی کی راہ پر گامزن ہے۔ مارکیٹ کے اعشاریوں پر نظر رکھنے والی ایک تنظیم نے صارفین سے متعلق ایک جائزہ رپورٹ جاری کی جو گزشتہ مالی سال یعنی 2020-21ءکی چوتھی سہ ماہی کے دوران مرتب کی گئی تھی۔ مذکورہ جائزہ رپورٹ سے معلوم ہوا کہ ہر 5 میں سے 4 پاکستانی اِس تشویش میں مبتلا ہیں کہ اُن کا ملک کس معاشی سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ مہنگائی کے بارے میں ہر 3 میں سے ایک پاکستانی نے تشویش کا اظہار کیا جبکہ تیسرے نمبر پر بڑھتی ہوئی بیروزگاری عام آدمی کے لئے ناقابل فہم ہے۔ ہر 10 میں سے 7 پاکستانی اِس بات پر عدم اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں کہ پاکستان کس سمت میں آگے بڑھ رہا ہے جبکہ ہر 10میں سے صرف 1 پاکستانی نے پاکستان کی اقتصادی صورتحال پر تسلی کا اظہار کرتے ہوئے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ مذکورہ جائزہ رپورٹ سے مجموعی طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ عوام کی اکثریت تحریک انصاف حکومت کی 29 ماہ دورانیئے پر مشتمل کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے۔تحریک انصاف کے طرز حکمرانی میں خرابی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وفاقی و صوبائی کابینہ کے اراکین کی کارکردگی کو جانچنے کے لئے ذرائع ابلاغ کی نظر میں اُن کی ساکھ اور تشہیر کو دیکھا جاتا ہے جبکہ ہونا یہ چاہئے کہ وزراءکی کارکردگی اور اُس سے حاصل ہونے والے نتائج کو دیکھا جائے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے طرز حکمرانی پر بڑا اعتراض بزدار طرز حکمرانی کی وجہ سے اُٹھایا جاتا ہے۔ تیسرا تحریک انصاف کی صوبائی اور وفاقی کابینہ میں شامل اراکین کو حاصل اختیارات اُن کے ذاتی کاروباری و مالی مفادات سے متصادم ہیں۔ اور تحریک انصاف کی طرز حکمرانی کا چوتھا زیرتنقید پہلو یہ ہے کہ سرکاری ملازمین کے حوصلے پست ہیں اور وہ خاطرخواہ دلچسپی اور کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔ اِس صورتحال سے نکلنے کے لئے تحریک انصاف حکومت کو اپنا لائحہ عمل تبدیل کرنا ہوگا۔ اِسی طرح وزرا ءکی کارکردگی کو جانچنے کے موجودہ پیمانے اور معیار کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ پنجاب میں تجربہ کار شخص کو وزیراعلیٰ بنایا جائے۔ قومی فیصلہ سازی کے عمل میں اُن افراد کو الگ کیا جائے جن کے اپنے مفادات آڑے آتے ہیں۔ افسرشاہی کے حوصلے بلند کرنے کے لئے اہلیت پر خاطرخواہ توجہ دی جائے اور بالخصوص اعلیٰ عہدوں پر فائز افسرشاہی کے اعتماد کو بحال کیا جائے۔ سمجھنا ہوگا کہ تحریک انصاف حکومت کی آئینی مدت کا نصف سے زیادہ وقت گزر چکا ہے اور اِس عرصے کے دوران جو غلطیاں کی گئی ہیں اُنہیں کھلے دل سے تسلیم کرتے ہوئے اُن کی اصلاح کے لئے کوشش کی جائے کیونکہ غلطی کرنا غلطی نہیں لیکن غلطی کی اصلاح نہ کرنا زیادہ سنگین نتائج کی حامل غلطی ہوتا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)